ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

عمران خان نے بڑا دھماکہ کردیا

Imran Khan
کیپشن: Imran Khan
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے مخالفین یعنی پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کے رہنماوں کے خلاف اپنے ٹوئیٹ میں ایک ویڈیو شیئر کی ہے اس ویڈیو کے ساتھ انہوں نے جو پیغام لکھا ہے اس کی عبارت کچھ یوں ہے 

 کی اس قوم نے NRO-1 "ان دو مجرم خاندانوں اور انکے حواریوں کی لوٹ مار نے دس برس میں ہمارا قرض چار گنا بڑھا دیا۔ NRO 2 بھاری قیمت چکائی ہے۔ تو اس سے بھی بڑھ کر شرمناک ہے 11 ارب روپے کے کرپشن کیسز کو معافی و استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔ قوم کی جیبوں پر یہ دن دیہاڑے ایک ڈاکہ ہے"

 اور اس کے بعد ایک ویڈیو ہے جس میں عمران احمد خان نے گرافکس کے ذریعے اپنے اُن تمام الزامات کا احاطہ کیا ہے جو وہ دو ہزار دس سے ان جماعتوں کے سربراہان اور اُن کے عزیز رشتہ داروں پر لگاتے آرہے ہیں لیکن اب کے انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ سب این آر او ٹو کے حصول کے بعد ذیادہ مضبوط ہوگئے ہیں اور انہوں نے 11 سو ارب کے اپنے مقدمات نیب قانون میں تبدیلی کے بعد ختم کرالیے ہیں اور بہت ہی شرمناک ہے یہ دن دیہاڑے ڈاکہ ہے ۔

 یہ بیانیہ کسی حد تک ٹھیک مان بھی لیا جائے تو کہتے ہیں کہ جب کوئی مُکہ لڑائی کے بعد یاد آئے تو اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے ۔ یہ ترامیم اُس آرڈینینس کا ردعمل ہیں جو 2021 میں صدر عارف علوی نے لاگو کئیں تھیں جس کے نتیجے میں اُس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکومت نے بے شمار اعتراضات اٹھائے تھے اس ترمیم کے مطابق چیئرمین نیب کو ایکسٹینشن دی جاسکتی تھی اور بار ثبوت ملزم پر تھا کہ وہ اپنے خلاف ثبوت فراہم کرے اور نیب کو موقع دے کہ وہ اسے سزا دلوائے نیب قوانین میں یہی وہ ایک شق تھی جس کے باعث نیب کا کام صرف الزام عائد کرنا اور گرفتار کرنا تھا اسلامی قوانین کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے ملک میں اس قسم کی انویسٹی گیشن یا تحقیقات کی کوئی مثال نہیں ملتی، کرپشن کے دنیا بھر میں کیسیز کے اندر پہلے الزام دہندہ کے خلاف ثبوت اکھٹے کیے جاتے ہیں اور اس کے بعد کیس داخل کیا جاتا ہے اور ملزم کو مجرم ثابت کیا جاتا ہے لیکن یہاں معاملہ ہی الٹ تھا کہ ملزم اپنے بے گناہ ہونے یا گناہگار ہونے کے ثبوت فراہم کرے۔

 آرڈیننس کے مطابق چیئرمین نیب کی تقرر کا طریقہ کار بھی تبدیل کیا گیا جس کے مطابق پہلے سے موجود طریقہ کار کے مطابق صرف لیڈر آف دی ہاوس یعنی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر نئے چیئرمین کی تقرری کرسکتے تھے لیکن آرڈینینس میں صدر مملکت کو بھی اس سلیکشن بورڈ کا حصہ بنادیا گیا جس کے بعد واضع تھا کہ اختیارات کُل کا مرکز و محور وزیر اعظم نے ہو جانا تھا کہ صدر مملکت تو وزیر اعظم کے ساتھ پارٹی تھا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان اپنی عددی اکثریت سے ان ترامیم کو ایک بل کی صورت اسمبلی سے پاس کراتے تاکہ اپوزیشن کو بھی بحث کا موقعہ ملتا لیکن انہوں نے آسان راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور بے شمار معاملات میں مارشلائی روایات کے مطابق آرڈیننس کے ذریعے ملکی معاملات کو چلایا جانے لگا۔

 نیب کے چیئرمین سیاسی حکومت کے ذریعے جس طرح بلیک میل ہوئے اس کا اندازہ طیبہ گُل والے کیس میں واضع ہوتا ہے اس ادارے نے جس طرح سیاسی انجئنرینگ میں اپنا کردار ادا کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اسی لیے اُس وقت کی اپوزیشن کو اس رویے کے بعد یکجا ہونے کا موقع ملا اور اسمبلی میں آئی تبدیلی کے بعد نہ صرف انہوں نے آرڈینینس کو ختم کیا بلکہ نیب ترامیمی بل میں مزید ترامیم بھی کرلیں جس کے بعد خان صاحب نے کورٹ میں اپیل بھی کی لیکن کورٹ نے معاملہ اسمبلی کے پاس بجھوا دیا اس کیس میں میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے جو ریمارکس دئیے اصل میں وہ ریمارکس ہی وہ " مُکہ " تھے جو خان صاحب کو اب یاد آرہے ہیں ذرا ریمارکس پر غور کریں جو اُس وقت کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے دئیے شاہ محمود قریشی کے ساتھ اس عدالتی مکالمے میں عمران خان صاحب کو دوبارہ اسمبلی میں جانے کا مشورہ دیا گیا چیف جسٹس نے تو یہاں تک کہا کہ پی ٹی آئی ہماری بات میں چھپے اشارے کو سمجھے اور عوام کے اعتماد کو یوں نہ روندیں لیکن اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر اسمبلی فلور کو چھوڑ جلسے جلوسوں کے لیے نکل کھڑے ہوئے ، اگر وہ اسمبلی جاتے تو حکومت اس قانون میں با آسانی تریم نہ کرپاتی اور یوں آج جناب عمران خان صاحب کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے جانے کے بعد این آر ٹو یاد نہ آتا اور یہ ویڈیو جاری نہ کی جاتی لیکن اب کچھ اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے وہ صرف ایک ایسے محلے دار ہیں جو بیٹھ کر ہمسایوں کی طرح سامنے والے گھر کی خوشیوں کو دیکھ کر کوسنے دیتے ہیں کہ یہ سب تو حرام کی کمائی ہے۔