جسٹس ثاقب نثار میری گردن کے پیچھےتھے۔ شوکت صدیقی

جسٹس ثاقب نثار میری گردن کے پیچھےتھے۔ شوکت صدیقی
کیپشن: Shaukat Siddiqui
سورس: Google Images
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس، شوکت عزیز صدیقی نے روسٹرم پر آکر کہا کہ اس وقت کے ادارے کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ)ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے، اس کے بعد آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں تو دے دیں.

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف  جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں آج ہی اپنے دلائل مکمل کر لیں جواب میں وکیل نے کہا کہ دلائل مکمل کرنا ناممکن ہے، 6 ماہ بعد میرا کیس لگایا گیا ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ چھ ماہ کے دوران ہم نے بھی بہت سے اہم مقدمات سنے، 16 ہزار ملازمین برطرف ہوئے انکا اہم کیس ہم سن رہے ہیں۔ 
جسٹس سردار طارق مسعود اور وکیل حامد خان سے مکالمے کے دوران جسٹس سردار طارق مسعود نے  کہا کہ کیا یہ آپ کی طرف سے تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ آپ سے آرمی جنرلز ملے؟ جب جرنیل آپ سے ملے تو آپ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا۔ ایک اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی توہیں عدالت کا نوٹس بنتا تھا۔ آپ نے کسی چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی۔ یہ بتا دیں کیا یہ آپ کا مس کنڈکٹ نہیں تھا۔ جس پر جواب میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ مجھے بس اس لیے نکالا نہیں جا سکتا کہ میں نے جرنیل کو نوٹس نہیں کیا۔  میں نے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا اور اس پر سپریم کورٹ کو توہین عدالت نوٹس دینا چاہیے تھا کہ ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 28 جون 2018 کو جرنیل آپ سے ملے آپ نے 31 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھا۔ ایک ماہ تک انتظار کیوں کیا؟ شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ آپ اس وقت کی صورتحال دیکھیں کہ اداروں کے سربراہان میری گردن کے پیچھے تھے، میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا تو کیا ہوتا اس وقت کے ادارے کے سربراہ ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے۔ سابق جسٹس نے کہا کہ اس کے بعد آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں  تو دے دیں۔ 23 سال بطور وکیل، 7 سال بطور جج اور 3 سال بطور سائل ہو گئے ہیں جبکہ میں اس نظام کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں۔

سپریم کورٹ کے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی پر اظہار برہمی کیا اور ان کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ حامد خان صاحب آپ نے دانستہ خاموشی اختیار کی ہے،  جب آپ کے موکل نے اس عدالت کی تضحیک کی تو آپ خاموش رہے، جس طرح آپ کے موکل پھٹ پڑے یہ ہر لحاظ سے غیر اخلاقی ہے، آپ نے شوکت عزیز صدیقی کی خاموش رہ کر حوصلہ افزائی کی۔ 

وکیل حامد خان نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جذبات اکثر آڑے آجاتے ہیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جذبات کی یہاں کوئی جگہ نہیں، ہمیں یہ انداز بالکل پسند نہیں آیا، آپ اپنے موکل کو اجازت دیتے رہے کہ وہ عدالت کی تضحیک کرتے رہیں۔ 

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ آپ اپنے موکل کو سمجھائیں کہ جب ان کے وکیل موجود ہیں تو وہ بات نہ کریں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے تقریر میں سب باتیں غلط کی ہیں،  سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ کہا کہ تقریر کرنا غلط تھا،  شوکت عزیز صدیقی کا موقف ہے کہ بطور جج آپ کا حق ہے جو مرضی کہیں، آپ کا موقف یہ ہے کہ ایک جج کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہو تو وہ اپنے اعتماد کے وکلاء کے پاس جا سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل سے کہا  آپ ہمیں بتا رہے ہیں کہ شوکت عزیز صدیقی پر اس وقت نفسیاتی دباو تھا۔ ججز کے بارے میں منفرد بات یہ ہے جج کے دل کے اندر آگ بھی لگی ہو تو وہ خود کو پرسکون رکھتے ہیں۔ وکیل حامد خان نے کہا ادارے سمجھتے تھے کہ شوکت صدیقی آزاد جج ہیں، فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی جوڈیشل کونسل نے شوکاز بھیجا۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس بار کونسل میں تقریر سے پہلے ہوا تھا، برطرفی تقریر پر ہوئی دونوں کا آپس میں تعلق نہیں بنتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل حامد خان سے پوچھا شوکت عزیز صدیقی نے کیا ریمارکس دیئے تھے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس دیے،  ججز سماعت کے دوران آبزرویشن دیتے رہتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی۔