(میاں داﺅد): جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی انکوائری رپورٹ میں پنجاب حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف نے پولیس کو موقع سے ہٹانے سے متعلق جھوٹ بولا جبکہ رانا ثنا اللہ کی زیر صدارت ہونے والا اجلاس منہاج القرآن کے باہر خون ریزی کا سبب بنا۔
رپورٹ کے حتمی حصے میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وزیر قانون رانا ثنااللہ کی زیر صدارت 16 جون کو اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری ٹو وزیر ا علیٰ پنجاب، کمشنر لاہور، سی سی پی او لاہور نے شرکت کی اور سپیشل برانچ کی رپورٹ روشنی میں یہ فیصلہ کیا کہ طاہر القادری کو اس کے مقاصد میں کامیاب ہونے سے سختی سے روکا جائے۔کمشنر لاہور نے اجلاس میں منہاج القرآن کے باہر غیر قانونی رکاوٹوں کو تجاوزات قرار دیا، توقیر شاہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے نمائندے کے طور پر رکاوٹیں ہٹانے کے فیصلے کی منظوری دی، ریکارڈ کے مطابق اجلاس کے شرکاء بھی لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے سے آگاہ تھے جس میں سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر منہاج القرآن کے باہر رکاوٹیں لگائی گئی تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی سی او لاہور کے مطابق ٹی ایم اے گلبرگ کی انتظامیہ کے اہلکار 16 جون کی آدھی رات کو منہاج القرآن کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے گئے تو منہاج القرآن کے کارکنوں نے مزاحمت کی اور پولیس پر پتھر برسائے، پولیس نے ردعمل میں مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے موقع پر متعدد افراد زخمی ہو گئے جو ظاہر کرتا ہے کہ عوامی تحریک کے غیر مسلح مظاہرین پر فائرنگ کا رد عمل پولیس کا غیر سنجیدہ اقدام تھا۔
رپورٹ کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے دوران یہ پتہ نہیں چلتا کہ پولیس کو گولی چلانے کا حکم کس پولیس افسر یا حکومتی افسر نے دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس افسران اور حکومتی افسران نے دانستہ طور پر جوڈیشل کمیشن سے معلومات چھپائیں، پولیس اور حکومتی افسران کا معلومات چھپانے کا یہ رویہ سچائی کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی حقیقت جاننے کی نیت ہی نہیں تھی، اسی لئے حکومت نے جوڈیشل کمیشن کو واقعہ کی تہہ تک جانے کے لئے مکمل اختیار نہیں دیئے۔ سانحہ سے قبل آئی جی خان بیگ اور ڈی سی او لاہور کو تبدیل کیا گیا۔ معصوم شہریوں کی خون ریزی سے قبل دونوں افسروں کو ہٹانا منفی تاثر دیتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کمیشن کے سامنے حلف نامہ دیا کہ انہوں نے پولیس کو منہاج القرآن کے باہر سے ہٹنے کا حکم دیا تھا لیکن رانا ثنااللہ، ہوم سیکرٹری پنجاب سمیت کسی پولیس افسر کا بیان اور حلف نامہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے دعوے کو سچ ثابت نہیں کرتا۔ کمیشن کو دستیاب ریکارڈ کے مطابق شہباز شریف نے پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم ہی نہیں دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، توقیر شاہ سمیت تمام حکومتی افسران اور پولیس افسران ایک دو سرے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے، یہ بھی حقیقت ہے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی زیر صدارت ہونے والا اجلاس منہاج القرآن کے باہر خون ریزی کا سبب بنا، حالانکہ لاہور ہائیکورٹ کے رکاوٹوں سے متعلق فیصلے سے آگاہ ہونے کے بعد منہاج القرآن کے باہر شہریوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں لیکن پولیس نے جس انداز سے شہریوں پر براہ راست گولیاں چلائیں اور شہریوں کے خلاف آپریشن کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس وہی کرنے آئی تھی جس کا اسے ٹاسک دیا گیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن نے رپورٹ میں حتمی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، توقیر شاہ سمیت سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے متعلق پنجاب کے تمام حکام کو معصوم نہیں ٹھہرایا جا سکتا، کمیشن نے مزید لکھا ہے کہ آئی ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ منہاج القرآن کی چھت پر تعینات کسی سکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کی۔آئی ایس آئی سب سیکٹر لاہور کے آفیسر کمانڈنگ کے مطابق انہوں نے شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے فون کیا اور صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا تو توقیر شاہ نے جواب دیا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور انہیں کوئی تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سپیشل برانچ پنجاب نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ طاہر القادری اور شجاعت حسین کی لندن میں ملاقات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ حکومت مخالف اتحاد بنایا جائے اور منہاج القرآن کے کارکنان طاہر القادری کا 23 جون کو استقبال کرنے کے لئے تیاریاں کر رہے تھے۔ سپیشل برانچ کی یہ رپورٹ وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق چیف سیکرٹری پنجاب نوید اکرم چیمہ، سابق ہوم سیکرٹری اعظم سلیمان خان، شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ اور شہباز شریف کے پرسنل سٹاف افسر نوید حیدر شیرازی کو بھی بھجوائی گئی۔
قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس سید شہباز رضوی اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے ایک سو ایک صفحات پر مشتمل متفقہ فیصلہ میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سانحہ کی وجہ سے عوام الناس میں بے چینی پھیلی، یہ بے چینی تب ہی ختم ہوگی جب رپورٹ کے حقائق منظر عام پر آئینگے۔ تحریری فیصلے میں انکوائری رپورٹ فوری طور پر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے متاثرین کو فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ پنجاب حکومت کوحکم دیا گیاکہ 30دن کے اندر رپورٹ منظر عام پر لا ئی جائے۔
فل بنچ نے حکم دیا ہے کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ اس سانحہ کے ٹرائل پر اثرانداز نہیں ہوگی تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، فل بنچ نے سنگل بنچ کے جج مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے بارے میں نامناسب الفاظ پر پنجاب حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید برداشت ہوسکتی ہے لیکن ججز پر نہیں، پنجاب حکومت کا یہ اقدام واضح توہین عدالت بنتا ہے تاہم حکومتی وکیل خواجہ حارث کی وضاحت پر حکومت کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر رہے، حکومت آئندہ احتیاط کرے تو اسکے لئے بہتر ہے۔
فل بنچ نے لکھا ہے کہ پنجاب حکومت نے خود حقائق جاننے کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا، کمیشن کی تشکیل کے بعد حکومت اسکی رپورٹ دبانے کا حق نہیں رکھتی ۔عوام کی بے چینی ختم کرنا بھی مفاد عامہ ہی ہے، فیصلے میں کہا گیا اگر کمیشن خود رپورٹ خفیہ رکھنے کی سفارش کرے تو رپورٹ پبلک نہیں ہونی چاہیے لیکن ماڈل ٹاﺅن کمیشن نے ازخود رپورٹ خفیہ رکھنے کی سفارش نہیں کی۔ آئین کا آرٹیکل 19 اے معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ پنجاب حکومت کا معلومات تک رسائی کا قانون بھی ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ آئین پاکستان اور پنجاب رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے بعد پاکستان کے ہر شہری کو ماڈل ٹاﺅن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ تک رسائی کا آئینی حق حاصل ہے۔ رپورٹ پبلک کرنے سے حکومت کا کوئی آئینی حق متاثر نہیں ہوگا اور نہ ہی رپورٹ کے مندرجات سے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا ٹرائل متاثر ہوگا۔