ویب ڈیسک : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت کی جس دوران ریمارکس میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں، عدالت میں ابھی مسئلہ آئینی ہے، سیاسی نہیں، عدالت سیاسی معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔
چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟ اس پر فاروق نائیک نے بتایا کہ بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے، اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی نہ گئی ہوتیں تو بحران نہ آتا، بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہورہا ہے، اسمبلیاں توڑنے سے عدالت پر بوجھ بھی پڑرہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ سرکاری فنڈزکے ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اسمبلی توڑنے پربھی بجٹ کے لیے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے، اخبارمیں پڑھا کہ آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے، تحریک
انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا یا رد کیا ہے؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پرعملداری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے، کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کولے کر بیٹھی نہیں رہے گی، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کےلیے آئین استعمال کرسکتے ہیں، عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہا کیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا اوراس سے نقصان ہوا، اس عدالت نے ہمیشہ احترام کیا اور کسی بات کا جواب نہیں دیا، جب غصہ ہو تو فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ ہی نہیں کرتے، نائیک صاحب، یہ دیکھیں یہاں کس لیول کی گفتگو ہوتی ہے اور باہرلیول کی ہوتی ہے، عدالت اوراسمبلی میں ہونے والی گفتگو کو موازنہ کرکے دیکھ لیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ حکومت نےکبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا لیکن حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں،کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کررہا، حکومت کی سنجیدگی یہ ہے کہ ابھی تک نظرثانی درخواست دائرنہیں کی، حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات والے فیصلے پر نظرثانی کا وقت اب گزر چکا ہے، ہم اس معاملے میں صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں، ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہونا چاہیے، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔