پورا ٹرائل ایسی تفتیش پر چلا جو قانونی نہیں تھی، سرکار کی مداخلت موجود تھی، بھٹو ریفرنس میں سرکاری وکیل کا اعتراف، سماعت مکمل

Zulfiqar Ali Bhutto Refferance, Chief Justice Qazi Faiz Isa, Justice Mussarat Hilali, Justice Jamal Mandokhel, Mian Raza Rabbani, Ahmad Raza Qasoori, Judicial Murder of Shaheed Bhutto, City42
کیپشن:  4 اپریل 1979 کو  پاکستان کے آئین کے خالق شہید ذوالفقار علی بھٹو کو  ایک متنازعہ عدالتی فیصلہ کے نام پر پھانسی دے دی گئی تھی۔ ان کی پھانسی پر ملک بھر میں عوام نے شدید احتجاج کیا تھا، تب سے آج تک  پاکستان میں اور پاکستان سے باہر اس پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ آج سپریم کورٹ نے بھٹو کی پھانسی کے متعلق 12 سال سے  زیر التوا صدارتی ریفرنس کی سماعت بالآخر مکمل کر لی ہے۔ اس ریفرنس میں بھٹو  کے ٹرائل کی قانونی حیثیت کے متعلق بنیادی سوالات پوچھے گئے تھے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دینے کے متعلق سابق صدر آصف علی زرداری کے  صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

 چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ  نےمقدمے کی سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

 چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کر لی، آج نہیں مگر کسی روز دوبارہ شاید اپنا فیصلہ سنانے بیٹھیں۔

ریفرنس کا پس منظر؛ "ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت عدالتی قتل تھی"

سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کو عدالتی قتل قرار دے کر تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لئے  اپریل 2011 میں یہ اہم ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

 ریفرنس کی سماعت ایک مرتبہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے شروع تو کر لی تھی لیکن وہ گوناگوں مسائل کی وجہ سے اسے مکمل نہ کر سکے اور یہ ریفرنس طویل عرصہ تک سپریم کورٹ کے زیر التوا مقدمات کے انبار کے پیچھے سرد خانہ میں پڑا رہا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قاضی القضاہ کا منصب سنبھالنے کے بعد اس ریفرنس کو دوبارہ سماعت کے لئے مقرر کیا۔دسمبر 2023 کے آخری ہفتہ ابتدائی سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا تھا کہ اس اہم ریفرنس کی سماعت جنوری کے دوران مسلسل کی جائے گی اور اسے جلد مکمل کیا جائے گا تاہم جنوری کی ابتدا میں ایک ہی سماعت کر کے عدالت نے اس سماعت کو فروری کے الیکشن کے بعد تک مؤخر کر دیا۔ چیف جسٹس کی رائے تھی کہ الیکشن کے متعلق اہم مقدمات کے بوجھ کے سبب 9 رکنی لارجر بنچ کا مسلسل اس کیس کی سماعت کرنا الیکشن سے فراغت ملنے سے پہلے مناسب نہیں ہو گا۔

ریفرنس کے پانچ سوال

سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

آخری سماعت کا مختصر احوال؛ آرٹیکل 187 کو بروئے کار لایا جائے، رضا ربانی کی رائے

پیر کے روز شہید بھٹو  کے عدالتی قتل کے متعلق سابق صدر آصف علی زرداری کے اپنی صدارت کے دوران بھیجے ہوئے اس ریفرنس کی آخری سماعت میں  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے دے سکتی ہے؟ اس پر آصفہ بھٹو، بختاور بھٹو اور صنم بھٹو کے وکیل رضا ربانی نے کہا عدالت ایسا کرسکتی ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187 کا استعمال کرسکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ہم نے آرٹیکل 187کا استعمال کیا  تو وہ رائے کے بجائے فیصلہ ہوجائے گا۔

رضا ربانی نے دلائل میں کہا کہ جب بھٹو کیخلاف کیس چلایا گیا اس وقت ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کررہے تھے، ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بھٹو کیس میں فیئر ٹرائل کے پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا، احمد رضا قصوری پر حملوں کے 6 مقدمات درج ہوئے اور کسی ایف آئی آر میں بھٹو کو نامزد نہیں کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس اسلم ریاض حسین بیک وقت سپریم کورٹ کے جج اور پنجاب کے قائم مقام گورنر بھی تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مارشل لاء آرڈر کے تحت تو کچھ بھی ہوسکتا تھا، مارشل لاء دور میں تو گورنر ٹرائل بھی چلا سکتے تھے۔

رضا ربانی نے کہا بیگم نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں سپریم کورٹ میں چیلنج کی، جسٹس یعقوب اس وقت چیف جسٹس تھے،جسٹس یعقوب نے جیسے ہی درخواست سماعت کیلئے منظور کی، انھیں بطور چیف جسٹس پاکستان ہٹا دیا گیا، جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس پاکستان بنا دیا گیا۔

نام نہاد وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کی بیرون ملک روانگی کے متعلق ریکارڈ نہیں مل رہا

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے محمود مسعود کے بارے میں پوچھا تھا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا ہم ریکارڈ ڈھونڈ رہے ہیں، نادرا کے پاس بھی پرانا ریکارڈ نہیں ہے، تین وزارتوں کو ہم نے ریکارڈ کے حصول کیلئے لکھا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کا زریعہ بننے والے  مقدمہ کے مدعی، وکیل احمد رضا قصوری نے روسٹرم پر آنے کا موقع ملنے پر اپنی طویل ہسٹری کے مطابق عجیب باتیں کیں۔ انہوں نے  اعتراف کیا کہ  انہوں نے بھٹو کیس میں پرائیویٹ کمپلینٹ 1977 میں دائر کی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ قتل 1974 کا واقعہ تھا آپ نے (بھٹو کے خلاف مقدمہ درج کروانے میں) اتنا وقت کیوں لیا؟ احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ پہلے کیس بند ہوگیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس بھی کافی پہلے بند ہوا آپ تبھی کیوں نہیں گئے کہ ناانصافی ہوگئی، آپ نے تین سال کیوں لیے تھے، اس کا جواب کیا ہوگا؟ 

احمد رضا قصوری نے جواب دیاکہ اس وقت ذوالفقار بھٹو وزیراعظم تھے،صورتحال ہی ایسی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کا اثر رسوخ، تعلقات اور وسائل والا خاندان تھا، آپ جیسا بااثر خاندان کیسے کمپلینٹ فائل کرنے میں اثر لیتا رہا؟ 

پورا ٹرائل ایسی تفتیش پر چلا جو قانونی نہیں تھی، سرکار کی مداخلت موجود تھی، سرکاری وکیل کا اعتراف

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آپ نے انکوائری بند ہونے کا آرڈر بھی چیلنج نہیں کیا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مختصر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بھٹوکیس میں تفتیش مجسٹریٹ کے آرڈر سے بند ہوگئی تھی، کوئی بھی نیا جوڈیشل آرڈر لیے بغیر دوبارہ تفتیش کی گئی۔ پورا ٹرائل ایسی تفتیش پر چلا جو قانونی نہیں تھی۔  بظاہر لگتا ہے اس وقت سرکار کی مداخلت موجود تھی۔

یاد رہے کہ 28 فروری کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نےآبزرویشن دی تھی  کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے۔

اب ایسی کوئی مداخلت روکنے کے لئے حکومت کیا اقدام کر رہی ہے؟

پیر کے روز آخری سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایسی کوئی مداخلت کرنے کیلئے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ آف کورس ہم تو عدلیہ کی آزادی کے داعی رہے ہیں۔ اس پر  جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آپ اقدامات کیا کر رہے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اب نئی حکومت آ رہی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، ہم اپنا کام کریں، دوسروں کو اپنا کام کرنے دیں۔

عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کے اپنے عہدِ صدارت میں بھیجے ہوئے اس ریفرنس کی آج سماعت مکمل ہونے کا اعلان کیا  اور ججوں نے اپنی رائے محفوظ کرلی۔

مذموم مقاصد کے تحت شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سازش کی گئی، شیری رحمان

 عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا ہے کہ تمام معاونین نے کورٹ کی ٹرائل پر توجہ دلائی، آج کورٹ میں انٹرویوز چلائے گئے۔

 شیری رحمان نے کہا کہ ثابت ہوا ہے مذموم مقاصد کے تحت شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سازش کی گئی، ہم ایک اچھے فیصلے کے منتظر ہیں، عدالت کا فیصلہ دنیا کو بتائے کہ عدالت کا نظام جاگ رہا ہے۔