ویب ڈیسک: اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق سفارتکار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی صحت سے متعلق میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد عطا ربانی نے نور مقدم قتل کے مقدمے کی سماعت کی تو اس واقعہ سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے والے استغاثہ کے گواہ مدثر کا بیان قلمبند ہونے کے بعد اس پر جرح کی گئی۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر عدالت نے ملزمان کے وکلا کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں سمیت دیگر غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکلنے کا حکم دیا اور بیس منٹ تک قتل کے مقدمے کی عدالتی کارروائی اِن کیمرہ ہوئی۔
ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے موکل کی ذہنی صحت کے بارے میں میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کے لیے درخواست دی گئی تھی لہذا عدالت اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے میڈیکل بورڈ تشکیل دے۔مقتولہ کے والد شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس درخواست پر نہ تو ملزم کے دستخط ہیں اور نہ ہی کسی کو پاور آف اٹارنی دی گئی ہے ۔ ملزم ظاہر کی جانب سے کبھی کوئی وکیل اور کبھی کوئی وکیل پیش ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ ملزم نے عدالتی کاغذ پر دستخط کیےتھے۔پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے کہا کہ ملزم کو نور مقدم قتل کے مقدمے میں جب جائے حادثہ سے گرفتار کیا گیا تھا تو اس کا میڈیکل چیک اپ کروایا گیا تھا، جس میں وہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ تھا۔
انھوں نے کہا کہ ملزم اس وقوعہ سے پہلے ایک نجی سکول میں بچوں کی کونسلنگ بھی کرتا رہا ہے اس کے علاوہ وہ اپنے والد اور اس مقدمے کے شریک ملزم ذاکر جعفر کی کمپنی میں ایک عہدے پر بھی فائز رہا ہے۔جس گھر میں نور مقدم کا قتل ہوا وہ گھر شریک ملزم ذاکر جعفر کی کمپنی کا برانچ آفس تھا۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اس مقدمے کے ٹرائل کے آغاز میں میڈیکل بورڈ بنانے کی درخواست کیوں نہیں دی؟ انھوں نے استدعا کی کہ درخواست کو مسترد کیا جائے۔ عدالت نے اس پر فیصلہ محفوظ کرلیا تاہم بعد میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا کہ میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔عدالت نے اس مقدمے کی سماعت پندرہ جنوری تک ملتوی کر دی۔