ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مردوں کیلئے دنیا کا مہلک ترین زہر بنانے والی خاتون

مردوں کیلئے دنیا کا مہلک ترین زہر بنانے والی خاتون
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42 : پرانے اور جدید زمانے میں دشمنوں کو مارنے کیلئے زہر کا استعمال کیا جاتا رہا ہے،سقراط سے لے کر یاسر عرفات تک زہر دیا گیا،کہا جاتا ہے کیوبا کے رہنما فیدل کاسترو  کو بھی زہر دیا گیا لیکن اس کے ٹھوس شواہد نہیں مل سکے۔ ارطرل غازی کو بھی زہر دیا گیا تھا لیکن وہ بچ گئے تھے۔

زہر تیار کرنے میں پرانے طبیبوں اور خواتین کا بڑا ہاتھ رہا ہے،صلیبی جنگوں کے دوران زہر کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ۔تاریخ سے ایک ایسی خاتون کا پتا چلا ہے جو  مہلک ترین زہر بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی ۔

بی بی سی کے مطابق سنہ 1791 میں ولفینگ امیڈیوس موزارٹ بسترِ مرگ پر پڑے یہ یقین کر بیٹھے تھے کہ ان کی بیماری دراصل زہر دیے جانے کا نتیجہ ہے اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس زہر کے اجزا کیا ہیں۔انھوں نے اس وقت کہا کہ  کسی نے مجھے ایکوا طوفانا دیا اور میری موت کے عین وقت کا حساب بھی لگا لیا۔


ایکوا یا ایکوا طوفانا ایک افسانوی زہر تھا اور یہ جرائم کو مہارت اور انتہائی باریکی سے سرانجام دینے کے لیے بہترین سمجھا جاتا تھا۔ یہ بظاہر بے ذائقہ، بے رنگ اور بنا خوشبو کے تھا اس لیے اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔
اس زہر کو دینے والا متاثرہ شخص پر اس کے اثرات کو کنٹرول کر سکتا تھا اور متاثرہ شخص کی موت کے وقت کو ایک ہفتہ، ایک ماہ یا ایک برس قبل تک جان سکتا تھا اور اس کے متاثرہ شخص کے جسم میں کوئی نشان نہ ملتے۔
اس پرسرار مائع، جس نے یورپ کو خوفزدہ کیے رکھا، کی تاریخ ایک صدی پرانی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس راز کا انکشاف ہونے سے قبل چھ سو مرد اپنی بیویوں کے ہاتھوں اس زہر کے اثرات سے مارے گئے تھے،یہ سب کیسے ہوا تھا یہ ایک تاریک لوک کہانی جیسا ہے۔

وہ دیسی یا آرگینک کاسمیٹکس بنانے کے لیے جانی جاتی تھی، خصوصاً وہ ان خواتین کے لیے کاسمیٹک مصنوعات تیار کرتی تھی جنھیں چہرے پر نشانات او چھائیوں سے زیادہ سنجیدہ مسائل کا سامنا تھا۔اس داستان کے مطابق گیولیا طوفانہ نے یہ زہر سینکڑوں اطالوی خواتین کو دیا تھا جب تک کہ ان میں سے ایک خاتون نے اپنے شوہر کو زہریلا سوپ دیتے وقت گھبرا کر یہ بھانڈا نہیں پھوڑا تھا اور اس طرح اس نے وہ سب کچھ بتا دیا جو دیگر خواتین اب تک چھپانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔
 
 

Azhar Thiraj

Senior Content Writer