معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے نگران حکومت نہیں بن پا رہی: چیف جسٹس، سماعت پھر کل تک ملتوی

chief justice of pakistan
کیپشن: chief justice of pakistan
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ویب ڈیسک : ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں  کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی ، جسٹس مندوخیل کاکہنا تھا کہ کل حکومتی وکلا کو سنیں گے اور پھر اٹارنی جنرل۔ جبکہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ درخواست گذاروں کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں جو وکلا دینا چاہتے ہیں تحریری دلائل دیدیں، نگران حکومت اس لئے قائم نہیں ہورہی کہ ساری نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہیں ۔کوشش ہے کل فیصلہ سنا دیں کل کیس کی سماعت ساڑھے تین گھنٹے تک کریں گے ۔ اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جلدبازی میں فیصلہ نہیں سنانا چاہتے۔

ے۔سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہو گئی۔ سماعت دوبارہ شروع ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ابھی تک پنجاب پر کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں کیا۔’اتنا بتا دیں کل پنجاب میں وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوگا یا نہیں؟‘ اس پرایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں بھی جمہوریت کا مذاق بنایا جا رہا ہے، حکومتی اراکین کو ہوٹلوں میں قید رکھا گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی آئین کی مکمل پاسداری کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ  وزیراعلی کے انتخاب تک عثمان بزدار کام جاری رکھیں گے، پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے اس کی عدالت انکوائری کرائے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہے اور معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل کس وقت پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوگا؟ ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 11:30 بجے ہوگا، چیف جسٹس نے کہا کہ کل سماعت کے دوران پنجاب اسمبلی کے حوالے سے اپ ڈیٹ لیں گے۔

کل صبح ہونے والی سماعت میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان اور اٹارنی جنرل خالد جاوید دلائل دیں گے۔خالد جاوید کا کہنا ہے کہ بحیثیت اٹارنی جنرل یہ ان کا آخری مقدمہ ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہم بھی جلد فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کو سن کر، سپریم کورٹ آف پاکستان نے 31 مارچ 2022 تک قومی اسمبلی کا تمام ریکارڈ پیش کرنیکا حکم دیدیا۔

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدالت کی توجہ صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو، صرف دیکھنا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔ عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔

 مسلم لیگ نواز کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کو 161 ارکان نے پیش کرنے کی اجازت دی۔161 ارکان کی حمایت پر سپیکر نے عدم اعتماد کی اجازت دی لیکن عدم اعتماد پر مزید کارروائی کو 31 مارچ تک ملتوی کردیا گیا۔

انہوں نے کہا  کہ رول 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی لیکن قرار داد پر بحث نہیں کرائی گئی’وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیراعظم رہیں۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ''تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں۔''

مخدوم علی خان نے کہا کہ ''رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں۔''

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے آج سپیکر رولنگ پر از خود نوٹس کی سماعت کے موقع ہر استفسار کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری سے پہلے اس کی وجوہات دیکھی جا سکتی ہیں؟

مسلم لیگ ن کے وکیل نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے وجوہات بتانا ضروری نہیں ہے۔تحریک عدم اعتماد جمع ہوجائے تو سپیکر مسترد نہیں کرسکتا۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ''عدم اعتماد کی تحریک جمع کیسے کروانی ہے طریقہ کار کے بارے میں آئین خاموش ہے۔''

وکیل ن لیگ نے جواب دیا کہ عدم اعتماد کے طریقہ کار کے بارے میں رولز موجود ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کی پہلی شرط 20 فیصد اراکین کی حمایت ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اکثریت پارلیمان میں موجود تھی؟ کیا وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بحث ہوئی؟ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے لیے 20 فیصد اراکین کی شرط آئین نے عائد کی ہے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آئینی شق کو قواعد کے ذریعے روندا نہیں جاسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اہم نکتہ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ قانونی تھی یا غیر قانونی، اصل مقدمہ سپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت کو جانچنا ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدم اعتماد پر دی گئی رولنگ آئینی تقاضوں کے خلاف ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیا عدم اعتماد کی تحریک میں غیر قانونی عوامل کو جانچا جا سکتا ہے؟
اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو عدم اعتماد کی تحریک میں موجود غیر قانونی عوامل کو جانچنے کا اختیار حاصل ہے۔
جسٹس مندوخیل نے مزید پوچھا کہ ڈپٹی سپیکر کا سپیکر کے اختیارات کو استعمال کرنا آئینی ہے یا غیر آئینی؟ تو مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کا سپیکر کی اجازت کے بغیر اختیارات استعمال کرنا غیر آئینی ہے۔
مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ مبینہ عالمی سازش کے حوالے سے سکیورٹی اداروں کو بُلا کر مکمل بریفنگ لے سکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اختیارات کی تکون موجود ہے، چھوٹی موٹی خامیوں پر سپیکر کے آئینی اختیارات کے خلاف کیسے رائے دے دیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ آپ چاہتے ہیں مقدمے بازی کا نیا دروازہ کھل جائے، اگر ایسا ہوا تو پھر صوبائی اسمبلی کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواستیں آنا شروع ہوجائیں گی۔
سماعت کے دوران ایک موقعے ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ چاہے تو آئی ایس آئی کے سربراہ کو ُبلا کر ان کیمرہ بریفنگ لے سکتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فی الحال آئین و قانون کو دیکھ رہے ہیں۔ 
 قبل ازیں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر رضا ربانی نے سپریم کورٹ میں کہا کہ جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ پڑھی اور تمام ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔انہوں نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے۔ڈپٹی سپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا۔ ان کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ۔ان کی رولنگ آئین کے خلاف ہے۔
رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے۔ اگر تحریک عدم اعتماد لانے والے ممبران اسے واپس لے لیں تو ایسا ہو سکتا ہے۔جب تحریک عدم اعتماد ٹیبل ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا ضروری ہے۔
آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا۔سپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا میڈیا میں بیان آیا ہے کہ تین ماہ میں انتخابات ممکن نہیں۔کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا موقف سن کر۔
سپریم کورٹ میں سپیکر کی رولنگ پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل ہیں۔
 دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے 31 مارچ 2022 تک کا قومی اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ہدایت کی ہے کہ کوشش کریں کہ کیس جلدی مکمل کریں تاکہ کوئی فیصلہ دیا جاسکے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ 31 مارچ کو بغیر کسی کارروائی کے اجلاس تین اپریل تک ملتوی کیا گیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 31 مارچ کو التوا کیسے کیا گیا؟اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اجلاس کی کارروائی کے نوٹس دیے جائیں۔

منگل کو سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر رش زیادہ ہونے کے باعث صحافیوں اور جونیئر وکلا کو کمرہ عدالت نمبر ایک میں جانے سے روک دیا گیا۔
سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ آنے والے لوگوں کو کمرہ عدالت میں جانے سے منع کر دیا گیا۔ کمرہ عدالت میں صرف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور وکلا کو جانے کی اجازت دی گئی۔