ہائی کورٹ نے پرویزالٰہی کو پیش کرنے کا حکم، آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس دیدیا

Lahore High Court, Parvaiz Ilahi Case hearing; Court orders to produce Parvaiz Ilahi tomorrow, Attok Jail, Contempt of court, Civil Contempt, criminal contempt, IG Islamabad, City42
کیپشن: لاہور ہائی کورٹ File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ملک اشرف: لاہور ہائیکورٹ میں پرویز الہی کی بازیابی کی درخواست پر پرچوتھی بار سماعت آج پیر کے روز ہوئی۔

عدالت عالیہ نے سیشن جج اٹک کو چودھری پرویز الٰہی کو اٹک جیل سے بازیاب کرکے کل پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ نےآئی جی اسلام آباد کو 8 ستمبر کیلئے توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری  کر دیا۔

جسٹس امجد رفیق نے قیصرہ الہی کی درخواستوں پر سماعت کی۔  عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سمیت دیگر پولیس افسران پیش ہوئے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب غلام سرور نہنگ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ قیصرہ الٰہی کی طرف سے طاہر نصراللہ وڑائچ ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

اسلم خان ایس پی سکیورٹی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ 

عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ 

جسٹس امجد رفیق نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ "آپ کے 2 سپر سپاہی ناصر رضوی اور دوسرا سپر سپاہی عمران کشور پیش نہیں ہوا،"

 آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے معزز جج کو بتایا کہ دونوں افسران کراچی میں ہیں کل شام کو واپس آئیں گے۔

جسٹس امجد رفیق: آپ کے گھر کو کوئی لوٹ کر چلا گیا کیا آپ کو پتہ ہے؟

 آئی جی ڈاکٹر عثمان انور:  جی مجھے پتہ ہے،سی ٹی ڈی کا خط آیا تھا اور میچ کی وجہ سے دہشت گرد تنظیم حملہ کرنے کا خدشہ تھا۔

جسٹس امجد رفیق: علی ناصر رضوی سے پوچھوں گا کہ ایسا کیوں ہوا۔ پرویز الٰہی کو کون لوگ لے کر گئے؟ 

 آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور: اسلام آباد پولیس لیکر گئی ہے۔

جسٹس امجد رفیق: کس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا؟

 آئی جی ڈاکٹر عثمان انور:  3 ایم پی او کے تحت پرویز الٰہی کو گرفتار کیا گیا ہے۔

جسٹس امجد رفیق: کوئی مجسٹریٹ کی اجازت موجود ہے؟ 

 آئی جی : جس سب کچھ عدالت کو بتائوں گا، مجھے کچھ وقت دے دیا جائے۔

جسٹس امجد رفیق: کوئی اسلام آباد پولیس سے آتا ہے تو وہ یونیفارم میں ہونا چاہیے۔

آئی جی : سب کی موبائل لوکیشنز کو نکال کر عدالت کے سامنے رکھوں گا۔

جسٹس امجد رفیق: سامنے نظر آ رہا تھا کہ علی ناصر رضوی نے کچھ بھی نہہں کیا۔ وہ تو پوچھ سکتے تھے کہ کس عدالت کے حکم پر گرفتار کیا گیا۔ آپ محکمانہ کارروائی کریں گے، عدالت کا آئی جی سے مکالمہ 

اس دوران جسٹس امجد رفیق نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مخاطب ہو کر کہا، "یہ کہہ دینا کہ جج صاحب ذاتیات پر اترے ہوئے ہیں یہ بڑا افسوسناک ہے، "  انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل سے مزید کہا۔"آپ اپنی ذات پر نہ لیں آپ تو ہولیس کا موقف سامنے رکھ رہے ہیں". اسلام آباد کا نظر بندی کا حکم قانونی تھا، مگر ہائیکورٹ کے حکم پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا.

جسٹس امجد رفیق نے قرار دیا کہ، اگر قانونی آرڈر کے تحت اگر پرویز الٰہی کو گرفتار کر بھی لیا گیا تو ہائیکورٹ کے حکم کیخلاف گرفتاری غیرقانونی ہو گی،  اسلام آباد ہائیکورٹ نظر بندی پر حکم جاری کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ ان کی نظر بندی کو کالعدم کر دیتی ہے تو ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق وہ آزاد ہوں گے۔

جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا، پرویز الٰہی کہاں ہیں؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا، پرویز الٰہی صوبہ پنجاب کی حدود سے باہر ہیں۔

جسٹس امجد رفیق: پولیس کو بھی نہیں پتہ کہا پرویز الٰہی کہاں ہیں؟

 آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور:  مجھے نہیں پتہ، واقعی مجھے نہیں پتہ۔

جسٹس امجد رفیق: اگر چودھری پرویز الٰہی اٹک جیل میں ہیں تو ہائیکورٹ اپنا اختیار استعمال کرسکتی ہے۔ چاہے ملزم کو کراچی پولیس نے ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار علاقہ میں قید رکھا ہو عدالت ملزم کو برآمد کروا سکتی ہے۔

 لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا،میں اس کیس کا عینی شاہد ہوں۔

جسٹس امجد رفیق: آپ اور کس کس کیس کے عینی شاہد ہیں۔

 لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ: میں بہت سے کیسز کا عینی شاہد ہوں۔ مجھے کیا پتہ ڈی آئی جی کھڑکی والی سائیڈ پر کیوں بیٹھے ہیں۔ کینال پر جا کر ڈی آئی جی نے مجھے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ اتر جائیں۔ سول کپڑوں میں لوگوں نے پرویز الہی کو گرفتار کیا۔ عدالت کی اس طرح کھلم کھلا توہین کی گئی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی چلاتا رہا کہ مجھے کوئی سرچ وارنٹ، گرفتاری وارنٹ گرفتاری دکھائیں۔ 

آئی جی جھوٹ بول رہے ہیں کہ انہیں پتہ نہیں۔

لطیف کھوسہ کے الفاظ پر آئی جی تلملا اٹھے۔

جسٹس امجد رفیق نے اس موقع پر کہا،"جھوٹ کوئی غیر پارلیمانی لفظ نہیں"."کسی کو جانور کہیں تو وہ برا مناتا ہے، یہی اسکو شیر کہہ دو وہ خوش ہوتا ہے".

 لطیف کھوسہ: ایسے گرفتار کیا گیا جیسے غنڈہ راج ہو.

جسٹس امجد رفیق نے لفیط کھوسہ سے کہا،"انکا جواب لینے دیں، یہ توہین عدالتی توہین نہیں ہوئی، یہ فوجداری یا سول توہین ہے۔ انہوں نے میرے حکم کی جے توقیری کی، جو سول اور فوجداری ہے۔

لطیف کھوسہ نے جسٹس امجد رفیق سے کہا،آج انکو وقت نہ دیں، 

آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے، عدالت کا لطیف کھوسہ سے استفسار 

جسٹس امجد رفیق: 2 کارروائیاں ہوں گی، ایک توہین دوسری محکمانہ کارروائی ہو گی۔

کھوسہ : جس طرح سے دورازہ کھولا گیا ڈی آئی جی سہولت کار تھے۔

جسٹس امجد رفیق: ابھی چودھری پرویز الٰہی کو عدالت میں واپس آنا چاہئے۔

جسٹس امجد رفیق نےسیشن جج اٹک کو چودھری پرویز الٰہی کو اٹک جیل سے بازیاب کرکے کل پیش کرنے کا حکم  دیا اور آئی جی اسلام آباد کو 8 ستمبر کیلئے توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کروا دیئے۔