سائفر کیس؛ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت 16 اپریل تک ملتوی

سائفر کیس؛ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت 16 اپریل تک ملتوی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اختشام کیانی : اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں،اگر یہ الزام ثابت بھی ہو جاتا ہے پھر بھی دو سال زیادہ سزا ہے۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مقدمے کی سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر، تیمور ملک و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پراسیکیوشن ٹیم سے حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی و دیگر عدالت میں پیش ہوئے،کمرہ عدالت میں ملزموں کے خاندانی افراد سمیت پارٹی قیادت بھی موجود تھی۔

 بیرسٹر سلمان صفدر نے سائفر کیس میں دسویں دن اپنے دلائل کا آغاز کیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے گزشتہ روز چارجز سے متعلق آپ سے کچھ چیزوں پر معاونت طلب کی تھی، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میری بحیثیت وکیل ذمہ داری ہوگی کہ ہر پہلو آپ کے سامنے رکھ سکوں، جب آپ رمضان میں کام کررہے ہوتے ہیں تو بندہ تھوڑا تھک جاتاہے، میری گزارش ہوگی کہ کسی ایک پارٹی کو عید سے پہلے عیدی ملنا چاہیے،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہم نے تمام پروسیجر کے ساتھ چل کر دیکھنا ہے۔

 بعد ازاں بیرسٹر سلمان صفدر نے سائفر کیس میں سزا معطلی کی استدعا کردی جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ابھی سزا معطل کرکے کیا کرنا ہے، ابھی مرکزی اپیلوں پر فیصلہ کریں گے،وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آج میں اپنے تمام دلائل قسط وار تقریبا پندرہ منٹ میں مکمل کروں گا، ایک دستاویز کے حوالے بات ہورہی ہے مگر وہ دستاویز فائل میں ہی موجود نہیں، ایک میرے پاس الزام آیا کہ سائفر کو تور مروڑ کر پیش کیا اور واپس بھی نہیں کیا، ایک اور الزام ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو پبلک کیا، الزام یہ بھی ہے کہ سائفر پبلک کرنے سے سیکیورٹی سسٹم کو نقصان پہنچایا گیا۔

 اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ سیکشن 5 ون اے یا بی میں سے کسی ایک میں سزا ہونی تھی؟،وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ سوال یہ ہے کہ کونسے شواہد کا سہارا لے کر سزا سنائی گئی؟،عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ سائفر ڈی کوڈ ہوا، کاپیاں 8 لوگوں کو گئی، مگر مقدمہ 2 افراد کے خلاف بنایا گیا؟ کہا گیا کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے سائفر کاپی گھما دی؟ وکیل نے جواب دیا کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ عمران خان نے سائفر کاپی ڈھونڈنے کی ہدایت کی تھی۔

 پھر عدالت نے دریافت کیا کہ ٹرائل کورٹ نے ون سی اور ون ڈی کے مطابق سزا دی ؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ون سی پر سزا غفلت کی تو بنتی ہی نہیں، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کہ جب سیکرٹری کے پاس کوئی چیز آجاتی ہے تو آگے جانے کی موومنٹ آفیشل ہوتی ہے یا نہیں؟ چلیں مفروضوں پر جاتے ہیں تو دو سال بھی ان سیکشنز پر زیادتی ہے۔

 وکیل سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پہلے تو انہوں نے 10 سال سزا دی پھر ساتھ چھوٹی چھوٹی سزائیں دی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔

 وکیل نے مزید کہا کہ آفیشل دستاویزات کی واپسی کا مقررہ وقت ایک سال ہے، مگر جن کے سائفر کی کاپی 17 ماہ میں واپس نہیں ہوئی تو ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ سول کیس ہے اگر ایک سال سزا بھی ہو تو بھی واضح ہونا چاہیے۔

 وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ سائفر کی کاپی واپس نہیں کی گئی، یہ کس نے کرنی تھی نہیں کہا گیا، سائفر 7 کو آتا ہے، 8 کو وصول کیا جاتا ہے اور جج صاحب کہتے 9 مارچ کو ٹویسٹ کیا گیا، پرنسپل سیکریٹری نے وزارت خارجہ کو کہا کہ سائفر کی ماسٹر کاپی لے آئیں یا ہمیں نئی کاپی دے، گواہ یہ بھی کہہ رہا کہ اعظم خان نے بتایا کہ کاپی گم گئی ہے نئی کاپی مل سکتی ہے؟ گواہ خود کہہ رہے کہ ماسٹر کاپی میں واپس وزارت خارجہ لے جاچکا، گواہ کے بیان کے مطابق ہم نے کہا کہ کوئی نئی کاپی نہیں ملے گی وہی ڈھونڈ لیں۔

  وکیل نے مزید کہا کہ یہ کیس نہیں کہ اصلی کاپی گم ہوگئی ہے، کیس یہ ہے کہ کاپی گم ہوگئی ہے، ان کا کیس یہ ہے کہ آفیشل سیکریٹ دستاویز گم کردیا گیا، ان کا کوئی الزام نہیں کہ کمپرومائز کردیا یا کسی اور کو دے دیا ، آفیشل سیکریٹ ڈاکیومنٹ جب گم ہو جاتا ہے تو متعلقہ اداروں کو بتانا لازمی ہوتا ہے، اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے جب کاپی گم ہوگئی تو وزارت خارجہ کو آگاہ کردیا گیا، جب کاپی کے گمشدہ ہونے سے متعلق وزارت خارجہ کو بتایا تو انہوں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں، میرا نہیں خیال کہ میں اس کو ختم ہوتے دیکھ رہا ہوں۔

 اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ہم تو آپ کو سن رہے ہیں آپ نے خود کل کہا کہ آج آپ دلائل مکمل کریں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے لیے اتنا ہی ہے، اس کو ہم مزید 16 اپریل سے سن لیں گے،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 16 اپریل کو پھر آپ مجھے میموری تازہ کرنے کے لیے وقت دیں گے۔

 بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس میں اپیلوں پر سماعت 16 اپریل تک ملتوی کردی۔