رول 28 کے تحت سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے : سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان
کیپشن: Supreme Court of Pakistan
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف ازخودنوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ رول 28 کے تحت سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے۔ اسپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا۔جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اسکی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔ ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، سب کو سن کر فیصلہ ہوگا۔

سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منیب اختر  شامل ہیں ۔جسٹس جمال خان مندوخیل بھی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا عدالت میں دو باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ عدالت کے 21 مارچ کے حکم کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ 21 مارچ کو سپریم کورٹ بار کی درخواست پر دو رکنی بنچ نے حکمنامہ جاری کیا تھا ۔سپریم کورٹ کے 21 مارچ کے 2022 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں ۔اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی  کہ کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ گزشتہ روز مختصر حکمنامہ جاری کیا تھا ۔ہم گزشتہ روز اسمبلی کی کارروائی پر سماعت کر رہے ہیں ۔

بابر اعوان نے استدعا کی کہ صدراتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے۔ عمران خان نے اجازت دی ہے کہ عرض کروں کہ ہم الیکشن کرانے کے لئے تیار ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں۔ بابر اعوان نے کہا جو کچھ بھی ہوا ہے سب ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں ۔ الیکشن کیلئے تیار ہیں۔سارا مسئلہ جلدی الیکشن کا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ سیاسی بیان ہے ۔ 

پیپلز پارٹی وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے کیس پر فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کی ۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت پر بوجھ بننا نہیں چاہیے ۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ  آپکو اپنے کیس کی کیا پریشانی ہے؟ عدالت کو تعین کرنے دیں کہ کون سا سوال کتنا اہم ہے ۔ فل کورٹ کی گزشتہ سال 63 سماعتیں ہوئیں۔فل کورٹ کی وجہ سے تمام دیگر مقدمات متاثر ہوتے ہیں۔گزشتہ سال بھی فل کورٹ کی وجہ سے دس ہزار مقدمات کا اضافہ ہوا۔آپکو بنچ پر اعتراض ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا بنچ پر مکمل اعتماد ہے۔تحریک عدم اعتماد جمع کرانا سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ عدم اعتماد کرنے کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں۔ بعدازاں ‏عدالت نے پیپلز پارٹی کے وکیل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔

 فاروق نائیک  نے دلائل دیتے ہوئے کہا آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد اور اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی۔ اسپیکر 14 دن میں اجلاس بلانے کے پابند تھے لیکن اسپیکر نے 27 مارچ کو اجلاس بلایا۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا کیس اجلاس بروقت بلانے کا نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا اسپیکر نے اجلاس تاخیر سے بلانے کی وجوہات بھی جاری کی تھیں۔وجوہات درست تھیں یا نہیں اس پر آپ موقف دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس  عمر عطابندیال نے ریمارکس دئیے کہ  ‏جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اسکی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔ معاملہ پر آج ہی  مناسب حکم جاری کریں گے۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل دئیے کہ آرٹیکل 95 وزیراعظم پر کسی چارج یا الزام کی بات نہیں کرتا ۔ عدم اعتماد کے ووٹ کے لئے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں ۔اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر بھی وزیراعظم والا طریقہ کار لاگو ہوتا ہے ۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کیا آرڈر  آف دی ڈے تب جاری ہوتے ہیں جب اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو ۔کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس بلانا ہوتا ہے ؟ کیا 10 مارچ آڈرز آف دی ڈے جاری کرنے کا نہیں۔ کیا 10 مارچ آرڈرز سرکولیٹ کرنے کا دن تھا ؟ 

 فاروق نائیک نے کہا آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد اور اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی۔سپیکر 14 دن میں اجلاس بلانے کے پابند تھے۔اسپیکر نے 27 مارچ کو اجلاس بلایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ  جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اسکی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ اگر اسپیکر عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ دیں، پھر کیا ہوگا ؟ ۔ 

فاروق ایچ نائیک نے کہا اسپیکر نے قرار داد کی اجازت دیکر معاملہ پر 3 اپریل تک اجلاس ملتوی کردیا ۔سپیکر ہاؤس میں قرار داد پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ہاؤس میں قرار داد پیش ہونے کے بعد ہاؤس اجازت دیتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ آئی ایم سوری۔چھوڑیں یہ سب۔مقدمہ کے حقائق پر آتے ہیں۔ 

وکیل پیپلزپارٹ فاروق ایچ  نائیک نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ عدالت میں پیش کر دی۔ فاروق نائیک نے کہا 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی ۔ 3 مارچ کو اجلاس 3 اپریل تک ملتوی کردیا گیا ۔ 27 مارچ کو عمران خان نے جلسہ میں غیر ملکی لہرایا ۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ اپوزیشن کے غیر کی سازش کا حصہ ہے۔ 31 مارچ کو نیشنل   سکیورٹی کونسل اور کابینہ کا اجلاس ہوا۔

عدالت   نے اہم نقطہ اٹھایا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت اسپیکر دیتا ہے یا ایوان  ؟ ا اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے ؟ اگر اسپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہےْ

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا 3 اپریل کا دن اجلاس تحریک پر بحث کا موقع دینے کی بجائے مقرر کیا گیا ہے ؟ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے کون سا دن دیا ۔ تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ جس پر  فاروق ایچ نائیک نے کہا اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی ۔

جسٹس منیب اختر  نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اسپیکر سے تحریک پر بحث کرانے کی درخواست کی ۔ فاروق ایچ نائیک  نے کہا  اسپیکر نے اختیارات سے تجاوز کر کے ملک کو آئینی بحران میں دھکیل دیا۔  جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت کو حقائق سے آگاہ کریں ْ

فاروق ایچ نائیک  نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا گزشتہ روز فواد چودھری نے بیرون ملک سے موصول ہونے والے خط پر تقریر کی ۔ 31 مارچ کو رولنگ میں بھی تحریک پر بحث کا نہیں کہا گیا ، عمران خان نے 27 مارچ کو عوامی جلسے میں ایک کی سازش سے آگاہ کیا ۔چیف جسٹس نے کہا اجلاس میں 31 مارچ کو بحث ہونا تھی۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا سات دن میں ووٹنگ ہونا تھی، 4 اپریل آخری دن بنتا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تین مارچ کو بحث ہوتی تو تین اپریل کو بھی ووٹنگ ہو سکتی تھی۔جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا تین اپریل کو ووٹنگ کیلئے اجلاس بلایا گیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دئیے  کہ آرٹیکل 95 میں بحث نہیں صرف ووٹنگ کا ذکر ہے۔  جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ اسپیکر نے کس رول کے تحت رولنگ جاری کی ہے؟ فاروق نائیک  نے کہا  فواد چودھری نے پوائنٹ آف آرڈر پر بحث بھی ہو سکتی تھی۔ سپیکر کو معلوم تھا کہ غیر قانونی قدم ہے اس لئے وہ موجود نہیں تھے۔  ایوان میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس پر ایوان میں بحث لازمی ہے۔

 جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ فواد چودھری کے سوال پر بحث نہ کرانا پروسیجرل غلطی ہو سکتی ہے۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا نہیں یہ پروسیجرل ایشو نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ  کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولز کے مطابق ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے۔رول 28 کے تحت سپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے۔سپیکر رولنگ ایوان میں یا اپنے آفس میں فائل پر دے سکتا ہے۔کیا سپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟ جس پر فاروق نائیک نے کہا رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولز خاموش ہیں۔‏جو رولنگ دی گئی تھی وہ غیر قانونی ہے۔

فاروق ایچ نائیک  نے کہا ڈپٹی سپیکر نے عالمی سازش کا الزام لگا کر ممبران قومی اسمبلی کو غدار ڈکلیئر کر دیا۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دئیے ہم ڈپٹی سپیکر کے اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔

 جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے ڈپٹی اسپیکر  رولز کے مطابق اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کو چلاتا ہے۔  میرے خیال میں ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا۔

 فاروق نائیک  نے کہا ڈپٹی سپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ قائم قام سپیکر کیلئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے۔ جس خط کا ذکر ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے ارکان کو غدار قرار دیدیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ عدم اعتماد کے معاملہ پر ووٹنگ ہونا تھی۔ جس پر فاروق نائیک نے کہا بالکل 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی۔ دوسرا کوئی ایجنڈا کارروائی کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ ایوان میں ووٹنگ کیلئے اپوزیشن کے 198 ارکان موجود تھے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ 198 ارکان میں کیا پی ٹی آئی کے ارکان بھی شامل تھے؟ فاروق نائیک نے جواب دیا پی ٹی آئی کے ارکان نے ووٹ تو نہیں ڈالا۔اپوزیشن کے 175 ارکان موجود تھے۔

 جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 95 اکثریت کی بات کرتا ہے۔کیا ووٹنگ کیلئے اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ دی جا سکتی ہے؟تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ ووٹنگ سے ہی ہونا ہوتا ہے۔

فاروق نائیک  نے کہا تحریک عدم اعتماد تین منٹ سے بھی کم وقت میں مسترد کر دی گئی۔  جس پرچیف جسٹس نے کہا قانونی نقطے پر بات کریں یہ جذباتی گفتگو ہے۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کس طرح غیرآئینی ہے یہ بتائیں؟ 

 فاروق نائیک  نے کہا  ڈپٹی سپیکر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ دینے کیلئے بااختیار نہیں تھے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے رولنگ قواعد کیخلاف تھی تو بھی کیا اسے آئینی استثنی حاصل نہیں ہوگا؟

چیف جسٹس  نے کہا آپ کا نقطہ ہے عدم اعتماد پر ووٹنگ فکس تھی۔آپ کا کہنا ہے ووٹنگ پر فکس ہونے کے بعد عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی۔ہمیں یہ پوائنٹ نوٹ کرنے دیں۔

 جسٹس جمال مندوخیل  نے سوال اٹھایا کہ کیا رولنگ آئینی بے ضابطگی ہے یا قواعد کی؟فاروق نائیک نے جواب دیا تحریک عدم اعتماد پر رولنگ آئین کیخلاف ہے۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا سپیکر کس سٹیج پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے؟ جس پر  فاروق نائیک  نے کہا تحریک عدم اعتماد 20 فیصد سے کم ارکان کی جانب سے پیش کرنے کی منظوری دینے پر ہی مسترد ہو سکتی ہے۔ سپیکر کسی صورت تحریک عدم اعتماد کو بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اسپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا۔  فاروق نائیک نے کہا  آرٹیکل 5 کے سہارےسے  بھی تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی۔

 چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا ‏وہ کون سی اسٹیج ہے جہاں اسپیکر قرارداد کی ویلیڈیٹی کو دیکھ سکتا ہے ؟ جس پر فاروق نائیک نے کہا صرف آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی پر۔ 

 چیف جسٹس نے کہا  آپکے مطابق اسپیکر کے پاس کوئی گراؤنڈ موجود نہیں تھا کہ وہ قرارداد کو ختم کرتے اور انکا یہ عمل بدنیتی پر مبنی ہے۔ جس پر فاروق نائیک نے جواب دیا  ‏میرا موقف یہی ہے۔تحریک عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے۔

پھر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی عدالتی فیصلہ دیں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو۔ فاروق نائیک نے کہا سپیکر کسی صورت تحریک عدم اعتماد کو بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دے سکتا۔کل تک کا وقت دیں تو پارلیمانی کارروائی کے تحفظ کے نقطے پر مطمئن کروں گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ وقت مانگ رہے ہیں ہم تو آپ سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا مقدمہ کو کل تک ملتوی کر دیتے ہیں ۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا  مقدمہ کو آج ہی مکمل کریں۔ 

 چیف جسٹس  نے مزید ریمارکس دئیے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے،اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا،اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کی وکلاء نے دینا ہے۔

جس پر فاروق نائیک نے کہا رولنگ کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے۔  صدر نے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے نگران حکومت کیلئے نام مانگ رہے ہیں۔تین دن میں آئین کے مطابق نام دینا لازمی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آج دو گھنٹے آپ کو سنا ہے، آپ تمام وکلاء دو گھنٹے میں دلائل مکمل کر سکتے تھے۔ ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، سب کو سن کر فیصلہ ہوگا۔وکلا کم وقت میں دلائل مکمل کریں تاکہ فیصلہ دیا جائے۔بعدازاں کیس کی سماعت کل 12 بجے تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔

Muhammad Zeeshan

Senior Copy Editor