(قیصر کھوکھر) پاکستان اور خاص طور پر لاہور شہر میں آئے روز سڑکوں کا بلاک ہونا ایک معمول بن کر رہ گیا ہے اور حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی جس کا جی چاہتا ہے وہ لاہور شہر کی بڑی سڑکوں کو بلاک کر دیتا ہے حتیٰ کہ پولیس وی آئی پی موومنٹ، عدالتی کارروائیوں، اور دیگر مذہبی جلوسوں کے نام پر از خود سڑکوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیتی ہے۔
ہمارے ملک میں بنیادی انسانی حقوق میں حکومت کی عمل داری اور اخلاقی قدریں گرتی جا رہی ہیں، آئین اور قانون احتجاج کا حق ضرور دیتا ہے لیکن اس احتجاج سے دوسروں کے حقوق کو سلب کرنا نہیں ہوتا ہے، سڑکیں بند ہونے سے کاروبار بند، ہسپتال بند، سکول و کالج بند، سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں کام بری طرح متاثر ہونا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ سڑکوں کو احتجاج کے نام پر بند کرنا بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
کسانوں سے لے کر ڈاکٹروں تک اور رکشا ڈرائیور سے لے کر ہر ایرا غیرا ہر روز مال روڈ ، جیل روڈ اور فیروز پور روڈ کو بلاک کر دیتا ہے ۔ لاہور شہر میںڈاکٹروں کی ہڑتال جاری ہے، مال روڈ ، جیل روڈ، گنگا رام چوک اور فیروز پور روڈ کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔ مریض تو رسوا ہوتے ہی ہیں ساتھ ساتھ ایک عام آدمی اور سڑک پر سفر کرنے والا ایک عام شہری سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
مال روڈ اور جیل روڈ بلاک کرنے سے کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے اور تاجر الگ سے سراپا احتجاج ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ایک آزادی مارچ بھی کراچی سے شروع ہو کر اسلام آباد پہنچ چکا ہے اور آزادی مارچ کے راستوں میں سڑکوں کا بلاک ہونا اور عوام کو تنگ کرنا ایک معمول بن گیا تھا اور اب سارا اسلام آباد بلاک ہے، جہاں پر غیر ملکی مشن ہیں، وزارتیں ہیں اہم حکومتی دفاتر ہیں اور ملک کی ٹاپ کی سیاسی قیادت اور اعلیٰ انتظامی مشینری ہے لیکن اسلام آباد کو بلاک کرنا ایک تعجب کی بات ہے ۔
مولانا فضل الرحمان سے گزارش ہے کہ وہ احتجاج ضرور کریں، لیکن اسلام آباد کو بلاک نہ کریں اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کو ڈسٹرب نہ کیاجائے اور عوام کو تنگ نہ کیا جائے صرف اور صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جائے لیکن کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں دھرنے کی سیاست کی بنیاد وزیر اعظم عمران خان نے رکھی ہے اور وہ خود اسلام آباد کو دھرنے کے نام پر بلاک کرتے رہے ہیں اور سڑکوں کو بلاک کرنا اور کنٹینرپر چڑھ کر احتجاج کرنا، انہوں نے ہی یہ روایت ڈالی ہے اور اب یہ روایت حکومت کے گلے پڑ گئی ہے۔اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں لیکن ان احتجاجوں کا اپنا اپنا ایک انداز ہے، اس احتجاج کی آڑ میں عوام کو ہرگز پریشان نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی سڑکوں اور ٹریفک کو بند کیا جا رہا ہے اور اگر کہیں سڑک پر احتجاج ہوتا ہے تو ایک لائن پر یا فٹ پاتھ پر احتجاج ہو رہا ہے بقیہ سڑک اور ٹریفک رواں دواں ہے۔
حکومت کی مشینری کو مفلوج نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی عوام کو حیلوں بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایک عجب روایت یہ بھی ہے کہ ادارے کمزور پڑ گئے ہیں اور جب تک سڑک کو بند نہ کیا جائے کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔
پہلے زمانے میں مجسٹریٹ کا نظام تھا تو فوری طور پر مجسٹریٹ پہنچ کر عوام سے مذاکرات شروع کر دیتا تھا اور عوام کا احتجاج حکام بالا تک پہنچاتا تھا اور سڑکوں کو فری کروا لیتا تھا لیکن اب مجسٹریٹ کا نظام نہ ہونے سے یہ خلا ابھی تک پر نہیں کیا جا سکا ہے اور اب ڈاکٹر 24 روز سے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ابھی تک حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی اور ان ڈاکٹروں نے ان ڈور میں بھی ہڑتال شروع کر دی ہے اور اگلے مرحلے میں ڈاکٹر نرس اور پیرا میڈیکس ایمرجنسی میں بھی ہڑتال کرنے کا پلان تیار کر لیا ہے۔
اب جب یہاں تک احتجاج ہوگا تو فوراَ حکومت حرکت میں آئے گی اور ڈاکٹروں کے خلاف کی جانےوالی تمام کارروائیاں واپس لے لی جائیں گی اور ڈاکٹروں کے تمام مطالبات بھی منظور کر لئے جائیں گے تو کیا حکومت اس سے پہلے یہ قدم کیوں نہیں اٹھاتی ہے یہ سوچنے کا مقام ہے۔
کیا احتجاج کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کر لئے جائیں۔ اس بات کی دنیا کا کوئی قانون یا آئین ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔ قانون کو فوری طور پر اس خلاف ورزی پر حرکت میں آنا چاہیئے اور آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنیوالوں کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے اور ان کو قانون کے نیٹ میں لایا جائے ۔
یہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ سڑکوں کے بلاک کرنے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے کے حوالے سے ایک قانون سازی کی جائے اور اس قانون سازی میں لوگوں کو احتجاج کا بھی حق دیا جائے اوردوسرے لوگ جو سڑکوں پر سفر کر رہے ہوتے ہیں اور پیدل چل رہے ہوتے ہیں یا سکول جانےوالے طلبا، کاروباری حضرات اور ملازمت پیشہ افراد یا راہگیروں اور سڑکوں پر گاڑیاں چلانے والے افراد کے بھی بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے تاکہ ایک عام آدمی اس احتجاج سے متاثر نہ ہو اورساتھ ساتھ احتجاج کرنے والوں کی حدود مقرر کی جائیں۔
مہذب قومیں ہمیشہ شہریوں کے حقوق کا خیال رکھتی ہیں۔ پاکستان میں پولیس اور انتظامیہ از خود سڑکیں کنٹینرز لگا کر بلاک کر دیتی ہے۔احتساب عدالتوں میں سیاسی رہنماﺅں کی پیشی ہو یا سری لنکا کرکٹ ٹیم کا دورہ لاہور یا کوئی وی آئی پی موومنٹ ہوپولیس از خود سڑکیں بلاک کر دیتی ہے