سابق صدر آصف زرداری اور ایوان صدر  مملکت کی مسند کے درمیان صرف چند دنوں کا فاصلہ باقی رہ گیا

سابق صدر آصف زرداری اور ایوان صدر  مملکت کی مسند کے درمیان صرف چند دنوں کا فاصلہ باقی رہ گیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: سابق صدر آصف علی زرداری کے صدر مملکت کے انتخاب کے لئے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد اب ان میں اور صدرِ مملکت کی مسند میں محض دنوں کا فاصلہ حائل ہے۔ 

آصف علی زرداری جب گزشتہ مرتبہ منتخب ہو کر ایوان صدر گئے تھے تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا تھا کہ صدرِ مملکت کا قومی اسمبلی توڑنے کا بالائے آئین اختیار از خود سرنڈر کر دیا تھا ور قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی اور اتحادیوں سے کہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں ترمیمی بل لا کر آئین میں ایک آمر کے ملک پر قبضہ کی یادگار آرٹیکل 58 ٹو بی کا خاتمہ کر کے انہیں بے اختیار صدر میں بد ڈالیں۔ 
چند روز بعد آنے الے صدرِ مملکت کے انتخاب کے لئے صدر آصف علی زرداری  مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے متفقہ امیدوار  ہیں ہی، انہیں اس اتحاد سے باہر عوامی نیشنل پارٹی کی بھی کھلی حمایت حاصل ہے اور آخری لمحات میں بعض دیگر بھی انہی کو ووٹ کرتے دکھائی دیں تو کسی کو حیرت نہیں ہو گی۔  پی پی پی پی کے صدر آصف علی زرداری کا مقابلہ کرنے کے لئے سنی اتحاد کونسل کے پردے میں ملفوف عمران خان کی پی ٹی آئی نے عمران خان کے ایک سخت ناقد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی دوست محمود خان اچکزئی کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے اور انہیں اپنا امیدوار قرار دے کر ان کی "انتخابی مہم" بھی چلا رہے ہیں۔

  دوسری جانب محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی کے کئی جرائم میں 34  سال قید کی سزا سن چکے بانی عمران خان کو اس لئے تمام سزائیں ختم کر کے نہ صرف جیل سے رہا کر دینے بلکہ وزیر اعظم بنا دینے کی کیمپین چلا رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ عوام نے 8 فروری کو مینڈیٹ عمران خان کو دیا ہے۔محمود خان اچکزئی کی اپنی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان  صرف بلوچستان اسمبلی میں ہیں۔ ان کو صدارتی انتخاب کے لئے اپنا امیدوار بنانے والی سنی اتحاد کونسل کو سپیکر کے انتخاب میں مسلم لیگ نون کے سپیکر منتخب ہونے والے کہنہ مشق سٹیٹسمین ایاز صادق کے مقابلہ میں نصف سے بھی کم ووٹ ملے تھے

صدر مملکت کے الیکشن کے لئے دونوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی ہفتہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے۔ سابق وزیر  چئیرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک اور سلیم مانڈوی والا نے صدر آصف زرداری کے کاغذات جمع کرائے جب کہ پیپلز پاری چھوڑ کر پی ٹی آئی اور وہاں سے سنی اتحاد کونسل مین جانے والے سردار لطیف کھوسہ اور عمر ایوب خان نے چیف جسٹس عامر فاروق کے سامنے محمود خان اچکزئی کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔

ای سی پی کے شیڈول کے مطابق صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ 9 مارچ کو صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگی، جب کہ ملک کے آئینی عہدے کے لیے امیدوار اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ہفتہ کی دوپہر تک ہی کاغذات نامزدگی جمع کروائے جا سکتے  تھے۔  وقت ختم ہونے تک صدر آصف زرداری کے مقابلہ میں صرف ایک ہی امیدوار سامنے آئے۔ یوں ان کے انتخاب سے آٹھ دن پہلے ہی نتیجہ واضح ہو گیا۔ 

 آج  پیر  4 مارچ  کی صبح 10 بجے تک اسلام آباد میں ریٹرننگ افسر کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال سے گزریں گے۔ امیدواروں کے پاس کل منگل 5 مارچ  کی دوپہر  تک اسلام آباد میں ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہو کر اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کا اختیار ہے۔ اسی دن امیدواروں کی فہرست جاری کر دی جائے گی۔

موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی اڈیالہ جیل میں کئی جرائم کی سزا بھگت رہے بانی پی ٹی آئی کے دست راست تھے، انہوں نے خود وزیر اعظم بننے کے بعد انہیں صدر بنوا دیا۔ بانی پی ٹی آئی کو تو  تحریک عدم اعتماد کے زریعہ وزیر اعظم ہاؤس سے نکال دیا گیا تاہم عارف علوی کو صدارت  سے ہٹانے کی کسی نے ضرورت محسوس نہیں کی۔  گزشتہ سال 9 ستمبر کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد وہ  گزشتہ پانچ ماہ سے ایسی توسیع شدہ مدت ملازمت پر ہیں جس کی پاکستان کی آئینی تاریخ میں پہلے کوئی نظیر نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل 44(1) کہتا ہے کہ صدر اپنے عہدہ کا چارج سنبھالنے کے دن سے پانچ سال کی مدت کے لیے اپنے عہدے پر فائز رہے گا، لیکن وہ اس عہدے پر اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک کسی جانشین کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔

 ڈاکٹر علوی سے پہلے تین صدور جنہوں نے اپنی پوری مدت پوری کی وہ  صدر چودھری فضل الٰہی (پانچویں صدر، 1973 سے 1978 تک)،صدر  آصف علی زرداری (11ویں، 2008 سے 2013 تک) اور صدر ممنون حسین (12ویں، 2013 سے 2018 تک) تھے۔عارف علوی مسلسل کو  قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مجبوراً ایوان صدر میں رہنے دیا گیا۔ اس دوران انہوں نے پہلے شہباز شریف کی حکومت اور بعد میں انوار الحق کاکڑ کی حکومت سے عملاً عدم تعاون کا رویہ اختیار کئے رکھا لیکن عملاً وہ کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈال سکے کیونکہ صدر آصف علی زرداری  نے صدر منتخب ہونے کے بعد پہلا کام یہی کیا تھا کہ صدر کے عہدہ کو پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کے رسمی سرپرست عہدہ میں بدل دیا تھا۔

آصف علی زرداری نے بی بی کے شہید ہونے کے بعد ملنے والی حکومت میں اہم ترین کام یہ کیا تھا کہ 18 ویں ترمیم کروا کر وفاق میں موجود متعدد اہم اختیارات خصوصاً وہ جن کا تعلق پبلک سروس سے تھا، صوبوں کو منتقل کروا دیئے تھے۔ اب پبلک کی خدمت سے متعلق اہم اختیارات  صوبوں میں ہیں وہاں آصف علی زرداری اپنے دو  بازوؤں مراد علی شاہ اور میر سرفراز احمد بگٹی کو وزیر اعلیٰ  بنوانے کے کام سے پہلے ہی فارغ ہو چکے ہیں اس لئے آئندہ آٹھ دن میں وہ اپنی رسمی انتخابی مہم کے لئے بس رسمی خیر سگالی ملاقاتیں ہی کریں گے۔