سٹی42: وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کو پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پاک پی ڈبلیو ڈی) کو "سالوں کی خراب کارکردگی اور بدعنوانی" کی وجہ سے "فوری طور پر" سمیٹنے کا حکم دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے یہ ہدایت حکومتی اخراجات کو کم کرنے اور حکومت کے انفراسٹرکچر کے حجم سے متعلق ایک میٹنگ کے دوران جاری کی۔
پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ، جسے عا م طور پر پی ڈبلیو ڈی کہا جاتا ہے، کو لارڈ ڈلہوزی نے 1854 میں قائم کیا تھا۔ اسے پورے برصغیر پاک و ہند میں بنیادی ڈھانچے اور تعمیراتی کاموں کے وسیع میدان میں استعمال کیا گیا اور اس ڈیپارٹمنٹ کے زریعہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کے بہت بڑے بڑے پروجیکٹ کئے گئے۔ آزادی کے بعد یہ محکمہ اپنے تعمیراتی وسائل کے ساتھ انڈیا اور پاکستان کی ریاستوں کے درمیان تقسیم ہو گیا، اس کا نام پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ رکھ دیا گیا۔
یہ ہاؤسنگ اینڈ ورکس منسٹری کا ذیلی محکمہ تھا۔ اس میں ملازمت دینے کے حوالے سے اس وقت کے صدر نے ایمپلائمنٹ کوٹہ پر عملدرآمد کا حکم دیا تھا۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق، محکمے نے وفاقی حکومت کی عمارات اور بنیادی ڈھانچے کے کاموں کو انجام دیا۔ تب یہ یس محکمہ پاکستان میں وفاقی حکومتے کے نئے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کا ذمہ دار ادارہ سمجھا جاتا رہا تاہم اٹھارویں ترمیم کے بعد اس ادارہ کے دائرہ کار میں آنے والے سبھی کام صوبوں کو منتقل ہو گئے اور یہ وفاقی محکمہ عملاً فارغ ہو گیا۔
پیر کے روز ہونے والے اجلاس میں، وزیر اعظم شہباز نے مشاہدہ کیا کہ پاک پی ڈبلیو ڈی بطور محکمہ اپنے مقاصد "حاصل کرنے میں ناکام" رہا ہے اور انہوں نے پاک پی ڈبلیو ڈی کو دیے گئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے متبادل طریقہ کار ک اختیار کرنے لیے کہا۔
اجلاس میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین جہانزیب خان نے شرکت کی۔
سرکاری اخراجات کو کم کرنے کے لیے حکام نے وزیر اعظم کو پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کی سربراہی میں ایک کمیٹی کی مرتب کردہ رپورٹ سے آگاہ کیا۔
کمیٹی نے بعض سرکاری اداروں کو ختم کرنے اور دیگر کو ضم کرنے کی سفارش کی تھی۔ وزیراعظم نے کمیٹی کو اپنی سفارشات کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کی۔
پاک پی ڈبلیو ڈی دفاعی بجٹ سے فنڈز کے علاوہ تمام وفاقی فنڈڈ کام انجام دیتا تھا۔ اس نے وفاقی حکومت کی زمینیں بھی حاصل کیں اور تیار کیں۔
تمام وفاقی ملکیتی سرکاری عمارتوں کی دیکھ بھال اور ان کی فرنشننگ جیسے وزیر اعظم سیکرٹریٹ، وزیر اعظم ہاؤس، منسٹرز انکلیو، سپریم کورٹ ججز انکلیو، اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس لاہور، کراچی اور دیگر معزز عمارتیں اس ادارہ کے دائرہ کار میں تھیں۔
اس نے وفاقی لاجز کے انتظام کو بھی یقینی بنایا اور انجینئرنگ کے معاملات میں وفاقی حکومت کے تکنیکی مشیر کے طور پر کام کیا۔
پاک پی ڈبلیو ڈی کے ڈائریکٹر جنرل کے نیچے انتظامی ہرارکی میں چھ سے زائد ممبران شامل تھے جن میں ایک چیف انجینئر (پلاننگ)، چیف ایڈمن آفیسر، چیف آرکیٹیکٹ، زونل چیف انجینئرز، ڈپٹی ڈائریکٹر (انٹرنل آڈٹ)، بجٹ اینڈ اکاؤنٹس ڈائریکٹر، اور ایگزیکٹو انجینئر برائے انسداد بدعنوانی شامل ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے اس ادارہ کے اخراجات زیادہ اور اس سے لئے جانے والے کاموں کی افادیت بہت تھوڑی ہو جانے کے سبب اسے فالتو ادارہ تصور کیا جا رہا تھا۔ اسی سوچ کااظہار اب وزیر اعظم کے آج کے فیصلہ میں بھی ہو رہا ہے۔