(مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک 22 سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا ، پولیس نے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 5 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا، چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق پولیس کو رات کو کال موصول ہوئی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) پولیس کے اہلکار جو علاقہ میں گشت پر تھے، انہوں نے مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا اور کالے شیشوں والی اس مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی۔
ترجمان کے مطابق پولیس نے متعدد مرتبہ ـ10 بجے تک گاڑی کا تعاقب کیا، تاہم اس کے نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے جس میں سے بدقسمتی سے 2 فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے، جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔
انہوں نے کہاکہ آئی جی اسلام آباد نے واقعے کا نوٹس لے لیا جبکہ ڈی آئی جی آپریشنز کی زیرنگرانی ایس ایس پی سی ٹی ڈی کی سربراہی میں ایس پی صدر اور ایس پی انویسٹی گیشن پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دے دیں، بتایا گیا کہ واقعہ میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا۔
دوسری جانب وفاقی دارالحکومت میں نوجوان کے قتل کا مقدمہ والد کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں درج کرلیا گیا، مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (قتل) کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے، مذکورہ مقدمے میں مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفی، سعید احمد اور افتخار احمد نامی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔
والد نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس کے ان ملازمین نے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی کہ تمہیں مزہ چکھائیں گے، جس کے بعد رات دو بجے ان پولیس اہلکاروں نے میرے بیٹے کی گاڑی کا پیچھا کیا اور ٹکر ماری، جس کے بعد انہوں نے روک کر مین شہراہ پر گاڑی پر 17 گولیاں چاروں اطراف سے چلائیں، جس سے میرے بیٹے کی جان چلی گئی۔
انہوں نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا کہ میرے بیٹے کی جان معمولی تلخ کلامی کی وجہ سے لی گئی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میرے بیٹے کو ان پولیس کی وردی میں موجود 'درندوں' نے ناحق قتل کیا۔ انہوں نے درخواست میں ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کرنے اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔
قبل ازیں مذکورہ نوجوان کے والد نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ رمنا تھانے کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی، ایس پی نے ہمارے سامنے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ لڑکا بے قصور تھا اور ہمارے اہلکاروں کی یہ غلطی ہے، تاہم میڈیا کے سامنے انہوں نے مؤقف دینے سے گریز کیا۔ انہوں نے وزیراعظم، وزیر داخلہ، ڈپٹی کمشنر سے مطالبہ کیا کہ مجھے انصاف دلایا جائے اور ان اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔
واقعہ سے متعلق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) شمس کالونی خالد اعوان نے لڑکے کے والد ندیم ستی و دیگر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رات ڈیڑھ سے پونے 2 کے قریب یہ کال چلی کہ شمس کالونی میں کسی گھر میں واردات ہوئی ہے اور ڈاکو گھر میں داخل ہوئے ہیں، جس کے تھوڑی دیر بعد یہ کال چلی کہ سفید رنگ کی ایک مشکوک گاڑی نکلی ہے، جس پر پولیس نے ردعمل دیا۔
انہوں نے بتایا کہ تاہم اس دوران نوجوان اسامہ نعیم ستی کی گاڑی بھی اتفاقیہ طور پر اسی جگہ س نکل رہی تھی اور کسی نے کہا کہ یہ مشکوک گاڑی ہے، جس پر ہماری انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے اس کا تعاقب کیا اور بچے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر وہ نہیں رکا۔
واقعہ کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لڑکے کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے سرینگر ہائی وے کے بالمقابل جیـ10/4 پر گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ لڑکا وہی جاں بحق ہوگیا۔انہوں نے بتایا کہ اس واقعہ پر آئی جی اور ڈی آئی جی نے نوٹس لیا اور ہمارے سینئر افسران وہاں پہنچے جس کے بعد کی گئی تحقیق میں یہ معلوم ہوا کہ یہ بچہ بیگناہ ہے اور اس کا اس واقعہ میں کوئی لینا دینا نہیں۔