ججز خط ازخود نوٹس:تحقیقات کون کرے؟ یہ سوال ہے، فل کورٹ بنانے پر مشورہ کریں گے  چیف جسٹس

Supreme Court six judges letter suo moto notice case, City42, Justice Qazi Faiz Isa, Jistice MAnsoor Alishah, Justice Athar Minallah, Islamabad High Court, Justice Banial, First hearing, High Profile Case, Independence of Judiciary, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری:  سپریم کورٹ نے اسلام ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط  پر ازخود نوٹس کیس کی پہلی سماعت میں قرار دیا کہ سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دینے نہ دینے پر مشورہ کے بعد طے کرے گی۔ دو چیزیں ہیں؛ انکوائری اور حقائق سامنے لانا، یہ دو کام کون کرے۔ یہ معاملہ ہے جیلانی صاحب کےکمیشن کا، یا پولیس کرے، یا ایف آئی اے کرے، ایجنسیاں کریں۔  ہم نہیں چاہتے تھے یہ انکوائری دیگر  ادارے کریں۔ ہم چاہتے تھے وہ تحقیقات کریں  جو معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہیں، اب معاملے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن انکوائری کمیشن کی حمایت کرتی ہے،انکوائری کمیشن سے ہی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ وہ کمیشن بنائے سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی۔

 حامد خان کو  ججز کمیٹی سے رجوع کی ہدایت
سماعت کے آغاز پر وکیل حامد خان نے کہا ہم نےلاہورہائیکورٹ بارکی طرف سے ایک پٹیشن کل دائر کی ہے، لاہور بار سب سے بڑی بار ہے جس نے پٹیشن دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا حامد خان آپ سے زیادہ قانون کون جانتا ہے، اب وہ زمانےچلے گئے جب چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، اب تین رکنی کمیٹی ہے جو کیسز کا فیصلہ کرتی ہے، نہ کمیٹی کو عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہیے نہ عدالت کو کمیٹی کا اختیار استعمال کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کمیٹی کو عدالت اور عدالت کو کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، آج کل ہم گوبلز کا زمانہ واپس لا رہے ہیں، پروپیگنڈا!  (جوزف گوبلز ہٹلر کا پروپیگنڈا وزیر تھا)

آپ کو وکلا کے نمائندہ کی حیثیت سے نہیں لے سکتا، حامد خان کو چیف جسٹس کا کورا جواب

چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ میں آپ کو وکلا نمائندے کے طور پر نہیں لے سکتا، وکلا کے نمائندے کے طور پر بار کے صدر موجود ہیں۔ ضرورت ہو گی تو میں ان کو بلاؤں گا۔میں انفرادی طورپر وکلا سے نہیں ملتا، بارکے نمائندے کےطورپر ملتا ہوں۔

فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ پڑھا جائے

 چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو فل کورٹ اجلاس کےبعد جاری کیا گیا  اعلامیہ پڑھنے کی ہدایت کردی ۔  اٹارنی جنرل نے عدالت میں اعلامیہ کی پریس ریلیز پڑھ کر سنائی ۔

آئین کے مطابق سپریم کورٹ تحقیقاتی کمیشن نہیں بنا سکتی، کمیشن بنانا حکومت  کا اختیار ہے

 اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت سپریم کورٹ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار ہے۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ  اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر آجاتے ہیں۔اٹارنی جنرل  نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا،خط کا ایک حصہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بارے میں ہے اس کو سپریم کورٹ نے دیکھنا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان بنے کہا، کسی کا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ نے اپنا اختیار حکومت کو دے دیا یہ غلط ہے،آئین کو ہم نے چھوڑ دیا ہے،سپریم کورٹ کے اختیارات کسی اور کو کیسے دے سکتی ہے۔ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے ہمارا ادارہ پہلے حدود سے نکلا ہو مگر اب ایسا نہیں ہے۔ آئین کے مطابق سپریم کورٹ کمیشن نہیں بنا سکتی،وفاقی حکومت کے پاس انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار ہے۔

 پھر میں سیٹ بیلٹ باندھ لوں؟

 اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے سامنے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں،عدلیہ کی آزادی پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی،اسفند یار ولی سمیت مختلف مقدمات میں عدلیہ کی آزادی واضح کی گئی،2017 سے 2021 تک جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے،آپ کو شاید میری بات مناسب نہ لگے،چیف جسٹس بولے کہ میں پھر سیٹ بیلٹ باندھ لوں؟

،چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل کے اس مکالمہ کے دوران عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

عدلیہ کے ضمن میں یہ حکومت گزشتہ حکومت سے مختلف ہے

 اٹارنی جنرل  نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور اس وقت کی حکومت ایف آئی آر درج نہیں کر رہی تھی،چیف جسٹس بولے میری بات رہنے دیں،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آج یہ بات کرونگا کہ چیف جسٹس کی اہلیہ گئیں مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی،اس وقت کی حکومت کا تعاون اور موجودہ حکومت کا تعاون سب کے سامنے ہے،مرزا شہزاد اکبر اور دیگر کیخلاف پی ٹی آئی حکومت میں ایف آئی آر نہیں ہوئی،شکایت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے شہزاد اکبر کا نام دیا تھا۔


عدلیہ کی آزادی پرکسی قسم کا حملہ ہوگا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہےتو کمیٹی کو بتائیں، پٹیشنز فائل ہونے سے پہلے اخباروں میں چھپ جاتی ہیں، کیا یہ پریشر کیلئے ہے؟ میں تو کسی کے پریشر میں نہیں آتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے نئی چیز شروع ہو گئی ہے، وکیل کہہ رہے ہیں ازخود نوٹس لیں، جو وکیل ازخود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے اُسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا عدلیہ کی آزادی پرکسی قسم کا حملہ ہوگا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ کے کام میں مداخلت ہم پسند نہیں کرتے، اگر کسی کا اور ایجنڈا ہےکہ میں ایساکروں یا ویسےکروں تو چیف جسٹس بن جائیں، ہم دباؤ نہیں لیں گے، ہم ایڈمنسٹریٹولی کام کر رہے ہیں، ہم نے ایگزیکٹو سے چھپ کر گھر میں میٹنگ نہیں کی، چیمبر میں میٹنگ نہیں کی، ہم نے ایڈمنسٹریٹو حیثیت میں میٹنگ کی، اس میں قانون میں فرق واضح ہے۔

 

کمیشن کے نام کے لئے حکومت نے ہم سے درخواست کی

حکومت نے درخواست کی تھی کمیشن کیلئے سپریم کورٹ نام دے، یہ تاثر پیدا ہوا جیسے یہ وفاقی حکومت کا بنایا ہوا کمیشن ہے: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ وفاقی حکومت نے انکوائری کیلئےکوئی اقدام خود نہیں اٹھایا تھا، سپریم کورٹ نے دو نام تجویزکیے تھے، ناصرالملک اور تصدق جیلانی کے، تصدق حسین جیلانی سے وزیرقانون لاہور میں ملے اوربتایا آپ کا نام آیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم نےچیمبریا گھر میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں باقاعدہ میٹنگ کی، میٹنگ میں وزیراعظم بطور انتظامیہ بطور سربراہ مقننہ بیٹھے تھے، میٹنگ میں دوسری جانب عدلیہ کی انتظامیہ بیٹھی تھی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا تصدق جیلانی نے کہا آپ ٹی او آر فائنل کر کے دیں تو جواب دوں گا، تصدق حسین جیلانی سے دوبارہ پوچھا گیا، پھر نام کا اعلان کیا گیا، حکومت نے درخواست کی تھی کمیشن کے لیے سپریم کورٹ نام دے، یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے یہ وفاقی حکومت کا بنایا ہوا کمیشن ہے، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے پوچھا کمیشن کو کون سی جگہ دی جائے گی، انہیں بتایا گیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی بلڈنگ میں کمیشن کام کرے گا۔

ہمارے تجویز کردہ جج پر سوشل میڈیا میں عجیب باتیں ہوئیں، مجھے شرمندہ ہوئی، جسٹس عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے ایسے نام تجویز کیے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جائے، سوشل میڈیا پر اُن کے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں، مجھے بڑی شرمندگی ہوئی، کسی مہذب معاشرے میں ایسی باتیں ہوتی ہیں، سمجھ نہیں آرہا ہم کس طرف جا رہے ہیں، اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو لکھ سکتے تھے، اپنی باڈیزکو لکھ سکتے تھے، تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں، وہ تو جواب نہیں دیں گے، وہ شریف آدمی تھے، انہوں نے انکار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ذاتی حملے ہوئے اور ایساماحول بنایاگیا تو کون شریف آدمی ایسی قومی سروس کرےگا، سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کردی گئیں، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کیلئے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہوگئے۔

کمیشن بنانے کا اختیار ہمارے پاس نہیں

چیف جسٹس پاکستان نے کہا میں جمہوریت پریقین رکھتاہوں، میں نے ہر موقع پر مشاورت کی ہے، کیا ہم نےفیصلہ کرلیا ہےکہ ہمیں اس ملک اور قوم کو برباد کرنا ہے، آئین کو پڑھنا ہم نے چھوڑ دیا ہے، وزیراعظم ایڈمنسٹریٹیو ہیڈ بھی ہیں اور ایک حد تک مقننہ کے بھی ہیڈ ہوتے ہیں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا جب سے چیف جسٹس بنا  ہوں، کہتاہوں کہ اپنی آئینی حدود میں رہ کرکام کرنا چاہیے، ہمارے پاس آئین میں کمیشن بنانے کا اختیار نہیں ہے، کمیشن بنانےکا اختیارسرکارکاہے، ہم نےمشورہ کیا اور نام دیئے۔

 ایک طرف عدلیہ کی آزادی، دوسری طرف ایگزیکٹو کی ساکھ خطرے میں ہے: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک شخص مرزا افتخار نےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وی لاگ کیا اور قتل کی دھمکیاں دیں، عدالت میں معاملہ آیا اور ایف آئی اے کو انکوائری کی ہدایت کی گئی، ایف آئی اے نے اس میں سے دہشتگردی کی دفعات ختم کر دیں، قاضی فائز  عیسیٰ نے 161 کے بیان میں شہزاد اکبر کا نام لیا۔

منصور عثمان نے بتایا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کے مشیر داخلہ اور اس وقت کے  آئی ایس آئی کے ڈی جی سی فیض حمیدکا نام لیا، لیکن اس کے بعد معاملہ لٹکا دیا گیا اور اس دوران دو چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے، اس خط کے بعد ایسا نہیں کیا گیا۔

 اٹارنی جنرل نے کہا ایک طرف عدلیہ کی آزادی دوسری طرف ایگزیکٹوکی ساکھ خطرے میں ہے، یقین دلاتا ہوں وفاقی حکومت کوئی ایساعمل نہیں کرےگی جس سےعدلیہ کی آزادی متاثرہو، عدلیہ کی آزادی ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہے، حکومت عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر ممکن معاونت فراہم کرےگی۔

ججز کو یقین ہونا چاہیے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے: چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس پاکستان نے کہا پریشر آپ کو کولیگ سے، سینئر، جونیئر، فیملی سے اور دوستوں سے بھی آسکتا ہے، ہم ججز کے خط کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں، اس خط کے کئی پہلو ہیں، خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کا ذکر ہے، اس کا اختیار واضح ہے، ایک مشہور زمانہ کیس جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا تھا، سپریم کورٹ بیٹھی اور حال ہی میں فیصلہ دیا، ججز کو یقین ہونا چاہیے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ایسا نہیں کہ اگر کوئی شکایت ہو تو وہ ججز کے گلے پڑ جائے۔

جس عدالت کی توہین ہو گی وہ خود توہین عدالت کا استعمال کرے گی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں کسی اور عدالت کی توہین عدالت کا اختیار استعمال نہیں کر سکتا، جس عدالت کی توہین ہوگی وہ خود ہی یہ اختیار استعمال کرے گی،۔

اب معاملے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے

چیف جسٹس نے کہا کہ میں جو لوگ چلے گئے ان پر انگلی اٹھانا نہیں چاہتا، صرف بات کرنا چاہتا ہوں، دو چیزیں ہیں، انکوائری، حقائق سامنے لانا، یہ دو کام کون کرے، یہ معاملہ ہے جیلانی صاحب کےکمیشن کا، یا پولیس کرے، یا ایف آئی اے کرے، ایجنسیاں کریں، ہم نہیں چاہتے تھے یہ انکوائری دیگر  ادارے کریں، ہم چاہتے تھے وہ تحقیقات کریں  جو معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہیں، اب معاملے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

چیف جسٹس نے کہا عمر عطا بندیال کے بعد سینئر جج میں تھا، پھر سردارطارق، پھر اعجازالاحسن تھے، میرے سیکرٹری نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز آپ سے ملنا چاہتے ہیں، ہم نے کبھی کسی جج کو منع نہیں کیا کہ وہ توہین عدالت کی کارروائی نا کرے، اگر کوئی بھی جج کےکام میں مداخلت کرے یقیناً توہین عدالت کی کارروائی کریں، میں نے پوچھا کب ملنا چاہتے ہیں تو بتایا کہ وہ گھر کے باہر کھڑے ہیں۔

 

توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار آئین پاکستان نے دیا ہے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
قاضی فائز عیسیٰ نے (چھ ججوں کے حوالے سے)  کہا کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیلئے نہ سپریم کورٹ کی اجازت چاہیے نہ  جوڈیشل کونسل کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط چیف جسٹس بندیال کے پاس آیا تھا۔  انہوں نے نہ مجھے اور نہ میرے بعد سینیئر جج سردار طارق کو میٹنگ میں بلایا۔ جسٹس بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن کو اس میٹنگ میں بٹھایا۔ اُس وقت ہمیں اس بارے میں نہیں بتایا گیا۔

ان کا کہنا تھا توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار آئین پاکستان نے دیا ہے، کوئی قانون توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار کمزور نہیں کر سکتا۔ اگر سول جج کی توہین ہو رہی ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے۔اگر ہائیکورٹ کے جج کی توہین ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے۔  ہمارا کام نہیں ہے کہ کسی کی بےعزتی کریں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا معاشرے میں بہت گند آگیا ہے، اگر عدالت توہین عدالت کا نوٹس دے تو جواب دینا پڑتا ہے، ہمارے پاس الیکشن کا معاملہ آیا تھا، یہاں شرطیں لگی تھیں کہ الیکشن نہیں ہوگا،میں نےکہا تھا یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے، جو ہمارا کام تھا ہم نے کیا اور اداروں سے ان کا کام کرایا۔

 

وکیل میرے پاس کیوں آ رہے ہیں؟ اپنے فورم پر جائیں

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا جب سے چیف جسٹس بناہوں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میرےکام میں مداخلت ہو رہی ہے۔  وکیل میرے پاس کیوں آرہے ہیں؟ اپنے متعلقہ فورم پر جائیں، 300 وکلا کا بغیر دستخط والا خط چلایا گیا۔

سب کا احترام کرتے ہیں اور سب سے احترام کی توقع کرتے ہیں،غلط کام کریں گے ہم فورا پکڑیں گے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ادارے کے جواب کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ ادارے کی جانب سے رسپانس نہیں دیا جا سکتا، فوری وزیراعظم سے ملاقات کی، فل کورٹ کی دو میٹنگز ہوئیں، عدالت میں ہم وزیراعظم کو نہیں بلا سکتے ان کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے، ہم نوٹس دیں گے تو سیکرٹری آ جائے گا، میں نے وزیراعظم کوبلاکر ملاقات کی اور واضح پیغام دیا عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی کی عزت اچھالیں، ایک طرف پارلیمان ہے، دوسری طرف صدر اور تیسری طرف حکومت بیٹھی ہے، ہم سب کا احترام کرتے ہیں اور سب سے احترام کی توقع کرتے ہیں،غلط کام کریں گے ہم فورا پکڑیں گے، نظام تب چلےگا جب ہرکوئی اپناکام کرےگا، ہم تو اپنا احتساب کرکے دکھا رہے ہیں۔  جس جج سے زیادتی ہوئی ہم نے اسے درست کرنے کی کوشش کی۔ سابقہ کیسز میں جو غلطیاں ہوئیں ہم نے اسے بھی تسلیم کیا۔ میں اپنے ججز کے ساتھ کھڑا ہوں۔  اگرکسی جج پرکوئی چیز ثابت نہیں تو میں اسے قابل احترام مانتا ہوں۔

سول جج پر دباؤ آئے تو اسے کیسے محفوظ کرنا ہے: جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپاکر اس اہم معاملے سے نہیں بچ سکتے، ایک سول جج پر دباؤ آئے تو اسے کیسے محفوظ کرنا ہوگا، یہ سنجیدہ معاملہ ہمیں حل کرنا ہوگا۔

ملک میں سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے: جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سب کوپتا ہےکیاہو رہاہے مگر سب تاثر دے رہے ہیں کچھ نہیں ہو رہا، اٹارنی جنرل صاحب آپ یہاں کھڑے ہو کر بیان جاری نہیں کر سکتے، ملک میں سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے اور تاثر ہے کہ سپریم کورٹ بھی ملوث رہی ہے، خط میں جج کہہ رہے ہیں یہ سیاسی انجینئرنگ اب بھی جاری ہے، ججز نے جو انگلی اٹھائی ہے وہ ملک میں مداخلت کےکلچرکی ہے اوریہ سب سےاہم سوال ہے۔

ماضی کو نہ کھولا جائے، میرے وقت میں کچھ ہوا تو میں اسے برداشت نہیں کروں گا: چیف جسٹس 
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز بھی چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو،  ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے، بہت کچھ ہو رہا ہے، 2017 سے یہ سب چلتا آرہا ہے، ماضی کو نہ کھولا جائے، میرے وقت میں کچھ ہوا تو میں اسے برداشت نہیں کروں گا، مجھے نشاندہی کرائی جائے اور میں بتاؤں گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔

سابق وزیر اعظم کا جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس؛ غلطی کس کی، نے کیوں کیَ؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس کے خلاف کچھ عرصہ قبل ایک ریفرنس آیا تھا، ریفرنس سپریم کورٹ سے خارج ہو گیا تھا، اس وقت کے وزیراعظم نے کہا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی جو کروائی گئی تھی۔

کیا آپ نے معلوم کیا وہ غلطی کس نے کی تھی اور کیوں کی تھی، کیا وہ معاملہ اس عدالت میں مداخلت کا نہیں تھا، پوچھیں اُس وقت کے وزیراعظم سے وہ کیا تھا اور کیوں تھا۔

ہر ہائی کورٹ اپنی پاور استعمال کرے، ہم مداخلت نہیں کرنا چاہتے: جسٹس منصور علیشاہ

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا ہر ہائیکورٹ کے پاس اپنی پاور ہے، وہ استعمال کریں ناں، ہم ہائیکورٹس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے۔

فی الوقت 7 ججز دستیاب تھے ہو سکتا ہے آئندہ فل کورٹ بیٹھے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم 7 جج اس لیے بیٹھے ہیں کیونکہ صرف 7 جج ہی اسلام آبادمیں دستیاب تھے، دیگر ججزاسلام آباد میں نہیں تھے اس لیے فل کورٹ نہیں بیٹھا، کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں، ہو سکتا ہے آئندہ فل کورٹ بیٹھے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا ہم کب تک ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائیں گے، یہ ملک آپ کابھی ہےاور میرابھی، ہم آگےچلتےہیں، بہتری کی طرف چلتےہیں، ہر موڑ پر سنجیدگی ہے، کچھ نئی پٹیشنز آرہی ہیں، آئین کا آرٹیکل 203 بہت اہمیت کا حامل ہے، آئین میں کسی عدالت کو دوسری پر برتری نہیں ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے اختیار استعمال کیوں نہیں کرتے؟ 

چیف جسٹس نے کہا 6 ججزکہہ رہے ہیں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کہا مگر انہوں نےکچھ نہیں کیا، ہائیکورٹ کے پاس اپنے اختیارات ہیں، چیف جسٹس کیوں نہیں استعمال کر رہے، ہم مداخلت نہیں کرناچاہ رہے مگر ہم انہیں ان کے اختیارات سے آگاہ توکر سکتےہیں۔

سپریم کورٹ نے ججز کے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی

 

سپریم کورٹ میں ریفرنس آیا، بعد میں وزیر اعظم نے معذرت کی، اس پر حکومت نے کیا ایکشن لیا؟

 جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ میں ریفرنس آیا ،جس پر (سابق) وزیر اعظم نے بعد میں معذرت کی،جج کیخلاف ریفرنس پر جو معذرت کی گئی اس پر حکومت نے کیا ایکشن لیا،چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ بولے کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو ججز کے معاملے پر جواب لازمی دینا چاہیے،سیشن جج ہو یا ہائیکورٹ کا جج سب کی آزادی لازمی ہے،اگر آج سپریم کورٹ نے کچھ نہ کیا تو یہ معاملہ دب جائے گا۔

چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ کی نوک جھونک
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سپریم کورٹ نے 9 مئی واقعات میں کچھ ملزمان کو ضمانت دی،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایم پی او کے تحت ملزمان کو پکڑ لیا گیا،کیا عدالتی احکامات پر حکومت ایسے عمل کرتی ہے،جسٹس نعیم اختر افغان بولے کہ اٹارنی جنرل صاحب !آپ نے کہا تعاون کریں گے مگر زبان سے مکر رہے ہیں،ایک کیس میں جب ضمانت دی گئی تو دوبارہ کیوں ایم پی او لگا کر پکڑا گیا۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ یا جمہوریت پر یقین کریں یا پھر نہ کریں،ایسا نہیں ہو سکتا کہ بس میری چلے، اگلی بار آپ (جج) الیکشن جیت کر آ جائیے گا۔ 

 جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ باتیں سب کرتے ہیں کوئی کرنا نہیں چاہتا،آپ کی حکومت مرزا افتخار کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی تو آپ بات کرتے۔ چیف جسٹس بولے کہ وہ کیس میرے متعلق ہے ،نہیں چاہتا تاثر جائے کہ دباؤڈال رہا ہوں۔
 جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ مجھےبات پوری کرنے دیں،یہ درست ہے کہ سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید عدالت بھی ملوث تھی۔ ججوں کا خط بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے،وی وی آئی پی کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ بنیادی انسانی حقوق کو عدالت کیسے نظرانداز کر سکتی ہے،جو کچھ ہورہا ہے عدالت اس پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس بولے کہ ایک سال کے بعد ججز نے دباؤ کے بارے میں بتایا جس پر ایکشن لیا،جو کچھ میرے سامنے نہیں ،اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔

فُل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججوں کی عدم دستیابی

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججز کی عدم دستیابی تھی۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ بار سے تحریری معروضات طلب کر لیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پھر بولے کہ ممکن ہے میں ایک ہفتہ لاہور اور ایک ہفتہ کراچی رہوں،باقی ججز سے مشورہ کرکے جلد بھی سماعت کی جاسکتی ہے۔ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کریں گے۔ آپس میں مشاورت کے بعد فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کریں گے۔ آج کا ہمارا حکم یہ سمجھا جائے کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ عید تک کچھ جج  لاہور اور کراچی میں ہیں۔

ہائی کورٹ کو توہینِ عدالت کا نوٹس کرنا چاہئے تھا، جسٹس منصور
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم ہائیکورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کریں گے،ہائیکورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہیے تھا،مگر اس معاملے پر فیصلہ دینا بہت اہم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ29 یا 30 اپریل کو آئندہ سماعت ہوسکتی ہے،مشاورت کے بعد حتمی تاریخ بتائیں گے،آج ہم کچھ سوال سامنے رکھ رہے ہیں،ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنچ تشکیل دیں۔ کچھ ججز اسلام آباد میں موجود نہیں ، اس لیے جو دستیاب تھے ان کا بنچ تشکیل دیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہائیکورٹ یا ماتحت عدلیہ کے ججز شکایت کریں تو اس پر ایکشن ہونا چاہیے،متعلقہ عدالت کے  چیف جسٹس کو معاملہ دیکھنا چاہیے۔عدلیہ کی آزادی پر فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اس خط کو سامنے رکھ کر عدلیہ کی آزادی واضح ہونی چاہیے،مجھے بھی تو لگے کہ میں آزاد ہوں،سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی ۔

چھ ججوں کا خط

28 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات لگائے تھے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے مشورہ سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن قائم کیا گیا تھا تاہم جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی۔

سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ مختلف وکلا اور لاہور ہائیکورٹ بار نے بھی اس حوالے سے آئینی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔