ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاک ڈائون کے مخالف بھی فضائل بیان کرنے لگے

لاک ڈائون کے مخالف بھی فضائل بیان کرنے لگے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اظہر تھراج /سٹی 42:پاکستان بھر میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی جب کہ مزید کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرہ مریضوں کی مجموعی تعداد 2450 تک جا پہنچی ہے،پاکستان میں اب تک کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں سے پنجاب میں 11، سندھ 11، خیبرپختونخوا 9، گلگت بلتستان 3 اور بلوچستان میں ایک ہلاکت ہوئی ہے۔

کورونا وائرس تفتان سے آنے والوں کے بعد رائیونڈ تبلیغی اجتماع میں شریک لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس مرکز میں کیسوں کی تعداد زیادہ ہونے پر پورے رائیونڈ شہر کو بند کردیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر لاہور کہتے ہیں کہ تبلیغی مرکز میں ہم نے 1200 افراد کو لاک ڈاؤن میں رکھا ہوا ہے۔ تما م افراد کے ٹیسٹ ہوئے، اجتماع میں 500 غیرملکی افراد بھی شریک تھے۔ گجرات میں چار مریضوں میں سے ایک مریض سے ملنے والے 40 افراد کا ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں سے 27 افراد میں مثبت پایا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ وائرس کتنی تیزی سے پھیلتا ہے۔ ننکانہ صاحب میں 2 افراد میں کورونا پایا گیا جو سعودی عرب سے آئے۔ حیدرآباد، بھارہ کہو، بونیر کی بستی منگا، اور لیہ سمیت دیگر علاقوں میں بھی تبلیغی اجتماع سے جانے والوں میں وائرس پایا گیا۔ اب پنجاب کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جو جو رائیونڈ اجتماع میں شریک رہا، ان سب کی فہرستیں بنائی جائیں۔

 
 

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت 49  فیصد مریض زائرین ہیں، 10 فیصد وہ ہیں جن کی کوئی ٹریول ہسٹری ہے، 30 فیصد ان کے میل جول رکھنے والے ہیں، 10 فیصد وہ لوگ ہیں جو تبلیغی اجتماع سے لوٹے۔ اس اجتما ع میں اندرون ملک سے ڈھائی لاکھ اور بیرون ممالک سے سیکڑوں افراد شریک ہوئے جنہیں لاہور کی مختلف جگہوں پر ٹھہرایا گیا۔ تبلیغی مرکز میں موجود 800 افراد کو لاہور کے کالا شاہ کاکو سینٹر منتقل کیا گیا ہے۔ حیدرآباد کی نور مسجد میں 94 تبلیغی ارکان میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ کراچی میں مرنے والے 2 افراد اس اجتماع میں شریک ہوئے تھے۔

اسی طرح  تفتان سے آنے والے زائرین جہاں جہاں گئے، وہاں سے کورونا کے مریض ملے۔ تفتان سے آنے والوں کو بلوچستان میں ہی روکا جاسکتا تھا لیکن انہیں ہماری ’’دور اندیش ‘‘حکومت نے پورے ملک میں پھیلا دیا۔ انہیں یہاں سے لاکر سکھر، ڈی جی خان، ملتان، ڈی آئی خان، فیصل آباد، لاہور، سرگودھا تک آباد کردیا۔ کچھ ایسے زائرین بھی تھے جنہیں چپکے سے گھروں میں بھیج دیا گیا۔ ان کے گھر جانے کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ہر پاکستانی مشکوک لگنے لگا ہے۔ ان کو باہر نکالنے والے مہربانوں میں وزیراعظم صاحب کے قریبی دوست کا نام آرہا ہے۔

اگر ان سب کو وہیں لاک کردیا جاتا تو پورا ملک لاک ڈاؤن نہ کرنا پڑتا۔پنجاب میں صورت حال یہ ہے کہ 1200 سے 1300 ٹیسٹ روزانہ ہورہے ہیں۔ پرائیویٹ لیبز 500 سے 600 ٹیسٹ روزانہ کررہی ہیں۔ میو اسپتال، پی کے ایل آئی کو بھی 400 بیڈ تک جایا جارہا ہے۔ راولپنڈی کے یورولوجی اسپتال میں 200 بیڈز بڑھائے جارہے ہیں۔ ہمارے پاس ٹوٹل 1250 وینٹی لیٹرز ہیں۔ ان میں پرائیویٹ اسپتالوں کے 400 وینٹی لیٹرز بھی شامل ہیں۔

کورونا وائرس سے متاثرہ دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے۔ کراچی میں مکمل لاک ڈاؤن ہے، مقامی سے افراد سے رابطوں سے پھیلنے والے مریضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔وزیراعظم نے پہلے خطاب میں فرمایا تھا کہ لاک ڈاؤن نہیں کروں گا، سندھ میں لاک ڈاؤن کردیا گیا۔ وزیراعظم نے دوسرے خطاب میں فرمایا تھا کہ لاک ڈاؤن نہیں کروں گا، اگلے چند ہی گھنٹوں میں پنجاب حکومت نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان ،کے پی کے اور بلوچستان میں بھی لاک ڈائون کردیا گیا۔

وزیر اعظم کے ایک ہفتے میں تین خطاب اور سیکڑوں ٹویٹس، لیکن منزل کا پتا نہیں۔ تیسرے خطاب میں پھر لاک ڈاؤن نہ کرنے کی ضد پر قائم رہے۔ ابھی تک اسی گردان پر ہیں کہ لاک ڈاؤن نہیں ہوگا، لیکن پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہے۔ سویلین علاقوں کی نسبت فوجی علاقوں میں لاک ڈاؤن بہت سخت ہے، ایسا لاک ڈاؤن کہ کینٹ سے باہر کا کوئی بندہ داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر داخل ہو بھی جائے تو اس کا وہاں سے نکلنا مشکل ہے۔

کل تک جو وزراء لاک ڈاؤن کے خلاف تھے، وہ پریس کانفرنس میں اس کے فضائل بیان کررہے تھے، اور اسی لئے اس لاک ڈاؤن کو مزید دس دن بڑھاتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن سے حالات قابو میں ہیں، صورتحال بہتر ہے۔معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان ہوں یا پٹرولیم کے مشیر ندیم بابر سبھی کہتے ہیں کہ لاک ڈائون سے پاکستان میں وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں مدد ملی ہے،ڈاکٹر ظفر مرزا تو شروع دن سے اس کے حامی رہے ہیں۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer