(علی رامے) سابق دور حکومت میں من پسند کمپنیوں پر ٹھیکوں کی نوازشات کے متعلق سٹی انویسٹی گیشن سیل نے اہم تفصیلات حاصل کرلیں۔ گزشتہ پانچوں سالوں میں شہر کے ایک کھرب کے منصوبے چند مخصوص کمپنیوں کو سونپ دیئے گئے۔
تفصیلات کے مطابق میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں پنجاب میں من پسند کمپنیوں کو ٹھیکوں سے نوازنے پر ہیومین رائٹس کا کیس سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا۔ جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔سٹی انویسٹی گیشن کی تحقیقات کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پانچ سال میں 84 ارب کے ٹھیکے مذکورہ کمپنیوں کو دئیے، جن میں ایم ایس عالم خان اینڈ برادرز کو ایل ڈی اے نے 11 ارب 50 کروڑ 69 لاکھ، ایم ایس مقبول کولسن کو 8 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ اور ایم ایس زیڈ کے بی کو 27 ارب 55 کروڑ روپے کے ٹھیکے دیئے۔ میکسون نامی کمپنی کو ایک ارب 40 کروڑ، 35 ارب کے ٹھیکے دیگر کمپنی کو دیئے گئے۔
دوسری طرف ٹیپا کی جانب سے مذکورہ کمپنیوں کو 26 ارب روپے کے ٹھیکے دیئے گئےہیں۔ ایم ایس عالم خان کو ٹیپا کی جانب سے ایک ارب 37 کروڑ، زیڈ کے بی کو 13 ارب ،مکیسون کو 4 ارب اور دیگر کو 8 ارب روپے کے ٹھیکے دیئے گئے ہیں۔ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 14 ارب روپے کے مجموعی ٹھیکے دیئے۔ میٹروبس پنڈی کے ٹھیکوں میں بھی من پسند کمپنیوں کو نوازا گیا۔ ایم ایس زیڈ کے بی کو 7 ارب 56 کروڑ 69 لاکھ، ایم ایس مقبول ایسوسی ایٹ اور چوہدری لطیف سننز کو 2 ارب 83 کروڑ کے ٹھیکے دیئے گئے۔
دوسری جانب ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مزکورہ کمپنی کو 11 ارب روپے کے ٹھیکے دئیے۔ جن میں ایم ایس زیڈ کے بی کو ملتان میٹروبس منصوبے کا ساڑھے 4 ارب روپے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ مقبول کولسن کو میٹروبس کا 3 ارب 24 کروڑ جبکہ دیگر کمپنیوں کو 4 ارب روپے کے ٹھیکے دیئے گئے۔واسا لاہور نے ایم ایس زیڈ کے بی کو 4 ارب روپے ٹھیکے دیئے جن میں شوکت خانم سیورج اور سیورج سسٹم کا منصوبہ شامل ہے۔ پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی حبیب رفیق پرائیوٹ لمیٹڈ کو آشیانہ قائد لاہور کی تعمیر کے لیے ایک ارب 55 کروڑ کا ٹھیکہ دیا۔
فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ایم عالم خان برادرز کو چھتیس کروڑ کا ٹھیکہ فیصل آباد سپورٹس کمپلیکس کی مد میں دیا گیا، جبکہ گرریٹر اقبال پارک کا ٹھیکہ نجی کمپنی کو 3 ارب 40 کروڑ روپے میں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے مذکورہ کمپنیوں کو دیئے جانے والے ٹھیکوں سے متعلق رپورٹ پنجاب حکومت سے طلب کی تھی جو اب عدالت عظمی کو پیش کردی گئی ہے۔