نریندر مودی کی ہندوتوا پالیسی ایک اور تاریخی مسجد کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئی

600 years old mosque demolished, New Delhi mosque demolished, DDA, Deklhi Development Authority, City42, Hindutva, BJP, Narendra Modi
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ستی42: بھارت کے دارالحکومت دہلی میں انتہا پسند ہندوتوا پرست نریندرا مودی حکومت کے زیر اثر  دہلی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کےحکام نے نئی دہلی کی 600 سال پرانی اخوند جی مسجد اور اس سے ملحق مدرسہ بحرالعلوم کو انکروچمنٹ قرار دے کر مسمار کر دیا۔ مسجد پے پیش امام کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی رسمی نوٹس تک نہیں دیا گیا۔مسجد اور مدرسہ کے احاطے میں موجود  قبریں بھی مسمار کردیں۔

دہلی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کادعویٰ ہے کہ  یہ غیر قانونی ڈھانچہ تھا جسے ہٹا دیا گیا ہے۔ اخوند جی مسجد اور بہرالعلوم مدرسہ کو  دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (DDA) نے 30 جنوری کو منہدم کیا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسجد ملکہ رضیہ سلطانہ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ تقریباً 600-700 سال پرانی تھی۔

بھارت کے اخبار انڈین ایکسپریس نے کہا ہے وہ بچے جو اخوند جی مسجد کے احاطے سے چلنے والے بہرالعلوم مدرسہ میں رہتے تھے اور پڑھتے تھے انہیں منگل کے روز صبح کے وقت اپنا سامان باندھ کر نکل جانے کو کہا گیا۔ 
مسجد کے پیش امام ذاکر حسین منگل کی صبح فجر  کی نماز کے لیے تیار ہو رہے تھے کہ پولیس نے ان کی مہرولی مسجد پر دستک دی۔ وہ بچے جو مدرسہ میں رہتے اور پڑھتے ہیں جو احاطے سے کام کر رہے ہیں انہیں کہا گیا کہ وہ سامان باندھ کر چلے جائیں۔

اگرچہ اس احاطے میں ایک مسجد، مدرسہ اور قدیمی قبرستان تھا، لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے اسے تاریخی ورثہ کی عمارت کی ھیثیت سے نوٹیفائی نہیں کیا گیا تھا۔ مسجد کے امام ذاکرحسین نے کہا، "مشینوں کے آنے اور مسماری شروع ہونے سے پہلے ہمیں اپنا ساز و سامان جمع کرنے کے لیے بمشکل دس منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔"  انہوں نے بتایا کہ ڈی ڈی اے حکام نے ان کا کا فون چھین لیا، اسنہیں زبردستی جائے وقوع سے دور لے گئے اور انہیں گھیرے میں لے لیا، سی آئی ایس ایف کے اہلکاروں کو اطراف میں تعینات کیا۔ مسجد کو مسمار کرتے ہی ملبہ اکٹھا کر کے تقریباً فوراً ٹھکانے لگا دیا گیا۔

شمست ریز خان، جن کی اہلیہ عشرت النساء کو اگست 2020 میں مسجد کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا، نے الزام لگایا کہ قبرستان کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کی اہلیہ کی قبر کی بھی بے حرمتی کی گئی۔

مدرسہ میں رہنے والے بچوں کے والدین کو اس کے انہدام کے بعد ہی اطلاع دی گئی: محمد سہیل شیخ بدھ کے روز کشمیر سے اپنے بیٹے سے ملنے کیلئے صرف مدرسہ کے مسمار ہونے اور پولیس کی بھاری تعداد میں موجودگی کی اطلاعات ملنے کے بعد اپنے بیٹے کا پتہ  لگانے کے لیے پہنچے  تو انہیں معلوم ہوا کہ مسجد اور مدرسہ اب مٹی کا ڈھیر بن چکے ہیں۔سہیل شیخ نے اپنی آنکھوں میں آنسو بپونچھتے ہوئے بتایا کہ میں اپنے بچے کو فینسی اسکول یا ہاسٹل میں نہیں بھیج سکتا اس لیے میں نے اسے یہاں بھیج دیا۔اس مدرسہ کو مسمار کئے جانے کے بعد اب وہ فکر مند ہیں کہ بچے کو کہاں پرھائین گے۔ فی الھال وہ ایک قریبی مدرسہ میں دیگر طلبہ کے ساتھ مقیم ہے جہاں پہلے ہی طلبہ ضرورت سے زیادہ ہیں۔

ڈی ڈی اے کے حکام نےمسجد کو مسمار کرنے کے لئے یہ بے ہودہ دلیل گھڑی ہے کہ یہ جگہ ایک تحفظ یافتہ جنگل ایریا  سنجے وان میں آتا ہے۔ اس جنگل کے علاقہ کی مینیجمنٹ کے بورڈ نے فیصلہ کیا کہ جنگل کے  لئے مخصوص کئے گئے علاقہ کو ہر قسم کی تجاوزات سے پاک ہونا چاہیے۔ ڈی ڈی اے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مذہبی عمارتوں کو ہتانے کے لئے ایک مذہبی کمیٹی سے منظوری حاصل کی گئی تھی۔ 
ڈی ڈی اے نے ایک بیان میں کہا کہ غیر قانونی ڈھانچوں کو ہٹانے کی، جو مذہبی نوعیت کی ہے، کو مذہبی کمیٹی نے منظوری دی تھی۔

جب انڈین ایکسپریس نے مسجد کے حکام کو پیشگی اطلاع نہ ملنے کے بارے میں پوچھا تو ڈی ڈی اے کے ایک اہلکار نے کہا، "ہم نے تمام مناسب طریقہ کار پر عمل کیا ہے۔"نئی دہلی کے علاقے سنجے وان میں کارروائی سے قبل وہاں موجود لوگوں کے موبائل فون ضبط کرلیےگئے تاکہ  کارروائی کی ویڈیو نہ بنائی جاسکے۔

 دہلی کے مسلمانوں کے مطابق اخوند جی مسجد التمش کے دور کی مسجد تھی جسے جِنات  والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔

دہلی میں گرائی گئی یہ مسجد تنہا ہی ہندوتوا پرستی کی لہر کا نشانہ نہیں بنی،   بنارس وراناسی کی ایک عدالت ن میں براجمان کسی ہندوتوا سیوک جج نے 17 ویں صدی کی گیان واپی مسجد میں ہندوؤں کو پوجا  کرنےکی اجازت دے دی ہے۔ کدشہ ہے کہ اب کچھ دنوں میں انتہا پسند ہندو اس مسجد کو اکھاڑ پھینکیں گے اور اس جگہ کو باقاعدہ مندر کی شکل دے لیں گے جیسا کہ وہ بہت سی دوسری مسجدوں کے ساتھ کر چکے ہیں۔ 

صرف مسجدین ہی نہیں تمام غیر ہندو بھارتیوں کے پرسنل معاملات آج کل ہندوتوا کے پرچارکوں کے رحم و کرم پر ہیں۔  ریاست اتراکھنڈ کے مسلمان، کرسچئین اور دیگر مذاہب کےلوگ اگلے ہفتے سے شادی، طلاق اور  وراثت جیسے معاملات  پر اپنے مذہب کے پرسنل لاز کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔  ریاستی حکومت اگلے ہفتے سے "یونیفارم سول کوڈ" متعارف کرا رہی ہے۔ یہ نیشنل کامن لا کوئی سیکولر قانون نہیں بلکہ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے تین انتخابی وعدوں میں سے ایک ہے جسے مئی 2024 کے عام انتخابات سے پہلے پورا کروانے کے لئے دھونس سے کام لیا جا رہا ہے اور مذاہب کے ماننے والوں کےپرسنل قرار دیئے گئے خانگی قوانین کے معاملات میں بے جا مداخلت کی جا رہی ہے۔ اب تک عدالتین اور پارلیمنٹ دونوں تمام مذاہب کے شادی بیاہ کے طریقوں پر سٹینڈرڈائزڈ طریقہ سے  ان کے اپنے قانون کے مطابق عملدرآمد کرنے کی آزادی دیتے رہے ہیں۔

 بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر اور مقبوضہ کشمیر کی علیحدہ حیثیت کے خاتمے کے وعدے مودی حکومت پہلے ہی پورے کرچکی ہے۔