پادری کی بارہ سالہ بچی سے شادی ختم کروانے کیلئے احتجاج بڑھ گیا

Ghana Preast, Underage marriage, city42, child's rights, Girl Child, city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 سٹی42: پادری کی 12 سال کی بچی سے شادی پر احتجاج زور پکڑ گیا. گڑیا جیسی کم سن بچی سے شادی کا یہ واقعہ گھانا میں کچھ روز پہلے ہوا ہے اور اس پر احتجاج مسلسل بڑھ رہا ہے۔ عام شہری بھی عورتوں اور بچیوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی تنظیموں کے احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔
 گھانا میں شادی کی قانونی عمر کم از کم 18 سال ہے، لیکن بعض قبائل مین اپنی رسموں کو بنیاد بنا کر کم سن بچیوں ک یشادی اب بھی کی جا رہی ہے۔ ایسے واقعات میں عموماً عام لوگ ملوث ہوتے ہیں لیکن اس واقعہ میں بچی کا استحصال کرنے والا پاسٹر ہے جس کی عمر 63 سال ہے۔ پاسٹروں کو عمواً جسمانی خواہشات کے زیر اثر انسانوں جیسا نہیں سمجھا جاتا۔

 گزشتہ دنوں گھانا میں ایک بااثر پادری کی 12 سالہ لڑکی سے شادی کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس کے بعد ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور پاسٹر پر تنقید کا سلسلہ اب بڑھتا جا رہا ہے۔ 

این جی او  "گرلز ناٹ برائیڈز "کے مطابق گھانا میں 19فیصد بچیوں کی شادی 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کر دی جاتی ہے. جبکہ 5 فیصد بچیوں  کی شادی ان کی 15ویں سالگرہ سے پہلے ہی ہو جاتی ہے۔

گھانا کے عوام نے بھی حکام سے مقامی کمیونٹی کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے 12 سالہ بچی کی شادی کو ختم کرنے اور پادری کے خلاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب مقامی کمیونٹی ( جس سے دلہن اور پادری تعلق رکھتے ہیں)کے رہنماﺅں نے اس شادی پر ہونے والی تنقید کو جاہلانہ قرار دیتے ہوئے شادی کا دفاع کیا ہے۔ کمیونٹی رہنماﺅں نے کہا کہ لوگ ان کے رسم و رواج کو نہیں سمجھتے اور جاہلانہ تنقید کررہے ہیں۔ حکومتی حکام نے ابھی تک اس متنازعہ شادی پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ۔

بچیوں کی کم عمر میں شادی دانستہ قتل

گزشتہ کئی دہائیوں کا ڈیٹا یہ ثابت کرتا ہے کہ بچیوں کی کم عمر میں شادی ان پر از حد منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور بہت سی بچیاں کم عمر کی شادی کے نتیجہ مین مختلف اسباب سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ اگر وہ مریں نہ بھی تب بھی  خود کھیلنے کی عمر مین وہ جن بچوں کو جنم دیتی ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں اور ان کے کم عمری میں مرنے کا امکان جوان ماؤں کے بچوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ بچیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی رسم، رواج بچیوں کی زندگیوں پر مقدم نہیں ہے۔