پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاریوں سے متعلق تحریری فیصلہ

SC PTI Long March Case Detail Decision
کیپشن: SC PTI Long March
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نےتحریک انصاف کے لانگ مارچ سے متعلق کیس کا کاتحریری فیصلہ جاری کردیا۔ سپریم کورٹ نے ریڈ زون داخلے اور عدالتی حکم عدولی کے شواہد سے متعلق آئی جی،چیف کمشنر،سیکرٹری داخلہ،ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی سے ایک ہفتے میں رپورٹس طلب کر لیں۔

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریوں اورراستوں کی بندش کی اسلام آباد بار کی درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا،14 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے مطابق آزادانہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں، درخواست دائر کرنے کا مقصد پورا ہوچکا، اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو نمٹایا جاتا ہے۔

فیصلے مطابق لانگ مارچ کے ختم ہونے کے بعد تمام شاہراوں کو کھول دیا گیا، تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاج ختم کردیا ہے۔ فیصلے کے مطابق تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، سپریم کورٹ کے 25 مئی کے حکم کی بے توقیری کی گئی، سرکاری املاک کو بری طرح نقصان پہنچایا گیا، امید کرتے ہیں مستقبل میں سیاسی جماعتیں تصادم سے گریز کریں گی۔

عدالت نے آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد، سیکرٹری وزارت داخلہ، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیے۔ فیصلے کے مطابق عدالت نے سوال کیا کہ عمران خان نے پارٹی ورکرز کو کس وقت ڈی چوک جانے کی ہدایت کی، کس وقت پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک میں لگی رکاوٹوں سے آگے نکلے؟کیا ڈی چوک ریڈ زون میں داخل ہونے والے ہجوم کی نگرانی کوئی کررہا تھا، کیا حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟کیا پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے والے مظاہرین کےخلاف ایکشن لیا۔

سپریم کورٹ کا کہناہے کہ بتایا جائے کتنے مظاہرین ریڈ روز داخل ہوئے اور کیا کوئی ایچ نائن گراونڈ بھی پہنچا، بتایا جائے کتنے شہری ہلاک ہوئے کتنے زخمی ہوئے اور کتنوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا، تمام ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائیگا کہ عدالتی حکم عدولی ہوئی یا نہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہناہےکہ دیکھنا ہے کیا ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سیکیورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی، عدالتی سوالات سے متعلق رپورٹس چیمبر میں جمع کرائی جائیں۔

سپریم کورٹ فیصلے میں کہا گیا کہ آئین آزادی اظہار رائے اور پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے مگر احتجاج ریاست کی اجازت سے مشروط ہونا چاہیے،بنیادی حقوق لامحدود نہیں، حقوق کے ساتھ آئین پاکستان میں ذمہ داریاں بھی ہیں، احتجاج کی آڑ میں غیر قانونی اقدامات کی اجازت نہیں، رپورٹس کے بعد دیکھیں گے حکم عدولی کرنے والوں کےخلاف کارروائی بنتی ہے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے عمران خان کی خلاف کارروائی کی استدعا کی، سیاسی ماحول گرم ہونے کے باعث عدالت نے کسی قسم کی کارروائی سے گریز کیا۔ دوسری جانب جسٹس یحیی آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔اختلافی نوٹ میں جسٹس یحیی آفریدی نے عمران خان کو نوٹس جاری کرنے کی سفارش کر دی۔ جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ میری رائے کے مطابق عمران خان نے عدالتی احکامات کی حکم عدولی کی۔

عمران خان کے خلاف کارروائی کے لئےعدالت کے پاس مواد موجود ہے، عمران خان سے پوچھا جائے کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ عمران خان کے بیان کی ویڈیو سپریم کورٹ میں چلائی گئی، عمران خان نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا، عمران خان نے 25 مئی کے سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کیا۔

26 مئی کو عدالت نے گائیڈ لائن بعد میں جاری کرنے کے حکم کیساتھ کیس نمٹا دیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے لانگ مارچ اور سڑکوں کی بندش سے متعلق درخواست دائر کی تھی، وفاقی حکومت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کےخلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

M .SAJID .KHAN

Content Writer