(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی لاہور ہائیکورٹ کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق فیصلے کیخلاف دائر درخواست پر حمزہ شہباز اور چودھری پرویز الٰہی کو طلب کرلیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری اور امتیاز صدیقی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی، حمزہ شہباز اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، پی ٹی آئی نے اپیل میں کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ہمارا مؤقف تسلیم کیا ہے، عدالت نے مختصر نوٹس پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دیاتاہم شارٹ نوٹس پر اجلاس بلانے سے ریلیف کے بجائے ہمارا نقصان ہوگا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کی جائے اور فیصلہ تبدیل کرکے اجلاس بلانے کا مناسب وقت دیا جائے تاکہ ہمارے ارکان اجلاس میں شریک ہو سکیں، اس لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے۔
پی ٹی آئی نے درخواست میں اپیل کی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کرکے انہیں عہدے سے ہٹایا جائے تاکہ صاف شفاف الیکشن ہو سکیں، لہٰذا پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا الیکشن فوری معطل کیا جائے۔
تحریک انصاف کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل کے ساتھ فوری سماعت کی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت کررہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کےآغاز پر لاہور سے پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی ویڈیو لنک پر پیش ہوئے جب کہ پی ٹی آئی کی طرف سے بابراعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اتفاق نہیں کرتا کہ کوئی ممبرموجود نہیں تو انتظارکرکے ووٹنگ کرائی جائے، ممبران جو موجود ہوتے ہیں اسمبلی ہال میں ہوں یا چیمبرز میں،ان کے ووٹ شمار ہوتے ہیں، آپ صرف بتائیں کہ ووٹنگ کے لیے کم وقت دینے کی درخواست پرکیا دلیل ہے؟
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ بظاہرآپ کے حق میں ہوا ہے، آپ بتائیں کہ آپ کے حق میں فیصلہ ہوا یا نہیں؟ آپ اپنی درخواست کی بنیاد بتائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ درخواست تو یہ ہے کہ کچھ اراکین حج پر،کچھ شادی بیاہ پرگئے، ان کو آنے دیں، سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کیوں کرے؟ کیا پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ مزید وقت دیا جائے؟ کس اصول کے تحت ہم لاہورہائیکورٹ کے فیصلے میں مداخلت کریں؟ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں اختلافی نوٹ میں ووٹنگ کی تاریخ کل کی ہے، کیا آپ کل ووٹنگ پر تیار ہیں؟
سماعت کے دوران پی ٹی آئی نے پنجاب میں دوبارہ انتخابی عمل کیلئے 7 دن کا وقت مانگ لیا۔
جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ ملک کے اندر موجود ارکان ایک دن میں پہنچ سکتے ہیں، آپ کے منحرف اراکین کے ووٹ پہلے ہی نکل چکے ہیں، پی ٹی آئی کے اراکین کو لاہور پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟ آپ چاہتے ہیں کہ 7 دن کے لیے پنجاب بغیر وزیراعلیٰ کے رہے؟ موجودہ وزیراعلیٰ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا انتخاب ہی درست نہیں ہوا، اگر وزیراعلیٰ نہ ہوتو کون صوبے کا انتظام سنبھالتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی وجہ سے وزیراعلیٰ عہدہ سنبھالنے کے قابل نہیں ہے تو پھر کون انتظام دیکھے گا؟ ہائیکورٹ چاہتا ہے کہ صوبے میں حکومت قائم رہے، کیا پنجاب میں قائم مقام وزیراعلیٰ والا فارمولا اپلائی ہوسکتا ہے؟ یہ نہیں ہوسکتا کہ سابق وزیراعلیٰ بحال ہوں۔
جسٹس اعجاز نے مزید ریمارکس دیے کہ 25 ممبران نکال دیں تو پی ٹی آئی کے کتنے ممبران اسمبلی ہیں؟ وزیراعلیٰ کے پاس186 ووٹ نہیں تو فی الحال برقرار رہنا مشکل ہے، وزیراعلیٰ بیمار ہوجائے یا باہر جائے تو کون صوبہ چلاتا ہے؟
سپریم کورٹ نے سماعت کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کیا جس کے دوبارہ آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا واضح ہے کہ آج 4 بجے انتخابی عمل نہیں ہوسکتا، اس بات میں وزن ہے کہ17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ کا انتخاب ہو، ضمنی انتخابات کے بعد عدم اعتماد کی تحریک بھی آسکتی ہے، 7 دن کا وقت مناسب نہیں لگتا، اختلافی نوٹ میں دیے گئے وقت میں ایک دن کا اضافہ ہوسکتا ہے، حمزہ شہباز کو جاری رکھنے پر اعتراض نہیں تو نقطہ صرف الیکشن کے وقت کا رہ گیا۔
سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کو عدالت طلب کرلیا، عدالت کے حکم پر دونوں سیاسی شخصیات سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچ گئی ہیں۔