استانی کو فیس بک کا استعمال مہنگا پڑ گیا

استانی کو فیس بک کا استعمال مہنگا پڑ گیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42: چین کے شہر تبت سے ایک پرائمری سکول کی استانی کو غائب ہوئے تقریباً چار برس بیت گئے مگر اب تک اسکا کوئی سوراغ نہیں مل سکا۔تاہم اب ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے مس مائی ڈونامی اس استانی کے لاپتہ ہونے میں چین کے اپنے سکیورٹی اداروں کا ہاتھ ہے ۔2016میں چین کے سکیورٹی اداروں نے مس مائی کو گرفتار کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا جس پر ملک کے راز افشاں کرنے کا الزام عائد ہے۔


مس مائی پر الزام ہے کہ انہوں نے چینی حکومت کی جانب سے بین کردہ سائیٹس کو استعمال کرتے ہوئے اہم ملکی معلومات دوسرے لوگوں کو فراہم کی ہیں۔انہوں نے چین کی اپنی مشہور سائٹ گریٹ فائر وال کی بجائے ایک کمپیوٹر سافٹ وئیر استعمال کرتے ہوئے چین میں پابندی شدہ سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے اپنے دوستوں کو تبت کے اصل حقائق کے متعلق آگاہ کیا۔اسکے علاوہ اکثر یورپین میڈیا سے شائع ہونے والی چین کے متعلق خبریں بھی شئیر کرتی رہتی تھیں ۔چینی زبان میں شائع کردہ جن اداروں کی خبریں وہ اپنی وال پر لگاتی تھیں ان میں سب سے اہم نام امریکہ سے آپریٹ کیے جانے والے ریڈیو فری ایشیااور ناروے سے چلنے والے وائس آف تبت کے ہیں.

چین کے انسانی حقوق کے ایک ادارے وائی قوان نیٹ میں لکھے گئے ایک کالم کے مطابق مس مائی ڈوو چین میں انٹرنیٹ کے حوالے سے اس قسم کی خلاف ورزی پر گرفتار یا لاپتہ ہونے والی سب سے پہلی شہری ہیں۔


واضع رہے گریٹ فائر وال حکمران جماعت کیمونسٹ پارٹی کی لاگو کردہ وہ سائٹ ہے جس کے سنسر شپ سسٹم کی بدولت حکومت مخالف کوئی بھی سائٹ یا ایپ عوام تک نہیں پہنچ سکتی ۔اور ریاست کے قانون کے مطابق بہت سی مشہورسوشل میڈیا سائٹس جیسے کہ فیسبک، ٹویٹر، یوٹیوب حتیٰ کی بی بی سی اور نیو یارک ٹائمز کے چلانے پر بھی چین میں مکمل پابندی عائد ہے.


یہ بات بھی قابلِ غورہے کہ اس سے پہلے ووہان میں کورونا وائرس کی صورتِ حال سے متاثرہ افراد کی رپورٹس ٹویٹر اور یوٹیوب پہ شئیر کرنے والی شنگھائی کی رہائشی زہانگ ژان نامی خاتون کو بھی  معاملے کوبڑھاوا دینے کے جرم میں گرفتار کیا جا چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق  covid19کے دوران رپورٹنگ کرنے والی وہ چوتھی صحافی تھیں جو گرفتار یا لاپتہ ہوئیں۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer