( سٹی 42 ) لاہور کے سابق سی سی پی او کو 2 ستمبر 2020 کو تعینات کیا گیا، ان کی تعیناتی کے آغاز میں ہی متنازعہ بن گئی، سیالکوٹ موٹر وے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کے بعد اپنے ڈیپارٹمنٹ میں متنازعہ بننے والے عمر شیخ لاہوریوں کی نظر میں بھی اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھے۔
سی سی پی او لاہور کا عہدہ کبھی بھی اتنا متنازعہ نہ رہا جتنا متنازعہ سابق سی سی پی اور لاہور عمر شیخ کے دور میں رہا۔ اپنے عہدے کا چارج لیتے ہی آئی جی پنجاب کے ساتھ تنازعہ کھڑا کیا جو آئی جی پنجاب کی رخصتی کا موجب بنا اور یوں وہ ایک منہ زور افسر کی حثیت سے سامنے آئے۔ افسروں اور ماتحتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عمر شیخ نے جو بہتر سمجحا کیا۔
عمر شیخ نے 90 روز میں لاہور کو جرائم اور جرائم پیشہ افراد سے نجات دلانے کا وعدہ کیا جو بے سود رہا۔ سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادی کیس میں عمر شیخ کا خاتون کے رات گئے نہ نکلنے کا مضحیکہ خیز بیان دیا۔ اس واقعہ کے بعد عمر شیخ کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے آگیا اور نچلی سطح پر پولیس افسران میں ایک بغاوت سا مواحول پیدا ہوا۔
پولیس اہلکاروں نے کبھی ان کے خلاف درخواستیں دیں اور کبھی ویڈیو بیانات جاری کیے۔ عمر شیخ اپنے سائلین، کاروباری شراکت داروں اور ماتحت عملے کو گالیاں نکالتے کی آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئیں۔ سابق سی سی پی او کی اپنی ذات سے قطعہ نظر اُن کی اپنی کارکردگی بطور افسر بھی کچھ خاص نہ رہی، صوبے کے سب سے بڑے شہر میں شہریوں کو جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ سٹریٹ کرائم اور جنسی جرائم میں مزید اضافہ ہوا، جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے بار ہاں نوٹس بھی لیا لیکن امن و امان کی صورتحال میں خاطر خواہ قابو نہ پایا جاسکا۔
جس کے بعد اب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نئے سال کے پہلے روز ہی عمر شیخ کو ہٹا کر غلام محمود ڈوگر کو نیا سی سی پی او لاہور تعینات کردیا ہے۔ سی سی پی او نے پہلے بینڈ باجے پھر معذور اہلکار کو سی ایم سکیورٹی میں شامل کیا۔ عمر شیخ نے لاہور پولیس کو یکم جنوری تک نیو یارک پولیس بنانے کا کہا تھا اور اتفاق سے یکم جنوری ہی کو ان کا تبادلہ کردیا گیا۔