قسط اول
خبر دھچکے والی ہے خاص کر اُن کے لیے جو پاکستان کے سیاسی اور معاشی معاملات کو لیکر میاں محمد نواز شریف کو مسیحا سمجھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نعرہ مستانہ وا کرتے ہیں "میاں جدوں آئے گا لگ پتہ جائے گا " ایسے تمام افراد اس بات کو مدنظر رکھیں کہ میاں آئے گا اور ضرور آئے گا لیکن اب کے وہ وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے لیے نہیں آئے گا، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ وزیراعظم بننے کے لیے نہیں آئیں گے تو پھر کس لیے آئیں گے اور اگر انہوں نے وزیراعظم نہیں بننا تو پھر پاکستان کی سیاست میں اُن کا کردار کیا ہوگا ؟ سیاست میں کردار نہ ہوا تو اس کا سب سے بڑا نقصان پاکستان مسلم لیگ ن کو ہوگا کہ اس جماعت کا ن ہی تو نواز شریف ہے۔
یہ تمام سوالات صحیع اور برملا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک افادیت رکھتے ہیں میاں محمد نواز شریف کے ناقدین ہمیشہ یہ بات کرتے نظر آتے ہیں کہ اُن کا پاکستان کی عملی سیاست میں کوئی کردار باقی نہیں رہا، 1999 کے مشرف مارشل لاء پر جب پونے دو سال قید بند کے بعد میاں نوازشریف اپنی فیملی کے ہمراہ جلا وطن ہوئے تو یہاں بات زبان زد عام ہوگئی تھی کہ میاں نواز شریف کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئی وہ اس جلا وطنی میں ہی زندگی گزاریں گے اور عملاً مسلم لیگ ن کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی، مشرف کا طوطی بمعہ سوشل میڈیائی اور ٹی وی اینکر تجزیہ کار طوطوں کے سر چڑھ کربول رہا تھا ہر کوئی اس بات پر متفق تھا کہ میاں نوازشریف "نو مور" کے اصولوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر بجھوائے گئے ہیں اس پلان کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار کی منتقلی اور پاکستان تحریک انصاف کو اپوزیشن کے کردار کے لیے منتخب کیا گیا۔
پالسی سازوں کو یہاں اپنے اندازوں میں شدید غلط فہمی ہوئی تھی میاں نواز شریف کو پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ دشمن کے طور پر پیش کرنے والے ہی اصل میں میاں نواز شریف کے سہولت کار بنے، نواز شریف کے دور کی ترقی کو بیک گئیر لگا تو لوگوں میں ایک بار پھر " میاں ساڈا آوے ای آوے " والا جوش جاگا جلا وطنی کے عذاب سے تنگ میاں نواز شریف نے واپس آنے کا قصد کیا، کبھی جہاز نہ اترنے دیا گیا اور کبھی اسلام آباد سے واپس بجھوایا گیا میاں کی مقبولیت کا دریا آمریت کے بند سے ٹکڑاتا رہا اور آخر کار اسے گرانے میں کامیاب ہوکر اپنا رستہ بناتے ہوئے اقتدار کے سمندر میں ابھرے اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن کر پاکستان کی سیاست کا نیا ریکارڈ بنا دیا، ایک مرتبہ پھر معاشی، اقتصادی طور پر ابھرنے لگا۔
سی پیک اور ون ورلڈ ون روڈ جیسے منصوبے شروع ہوئے تو پاکستان میں موجود گھنونے کرداروں نے " پراجیکٹ عمران " خان لانچ کیا دھرنے اور مار دھاڑ سے بھرپور لانگ مارچ جسے عوامی تحریک کی مدد بھی حاصل تھی کو اسلام آباد بجھوایا گیا، امپائر کی انگلی سے ڈرا کر راحیل شریف اپنی ایکسٹینشن کی ڈیل کی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے۔ پراجیکٹ عمران خان میں اس فلم کے ہیرو عمران خان 160 دن تک دھرنہ دئیے اسلام آباد میں بیٹھے رہے، سپریم کورٹ پر زنانہ و مردانہ شلوریں سوکھنے کے لیے ڈالی گئیں، پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا جس کی لمحہ بہ لمحہ رننگ کمنٹری موجودہ صدر عارف علوی اپنے کپتان کو سنواتے رہے۔
تشدد کی اس روش کو بھی جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان کے سابق چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار اور اُن کی جاں نثار ٹیم نے میاں نواز شریف کی نااہلی کا بیڑا اٹھایا، نیب اور اینٹی کرپشن کے لیے "ہیرے" بدی کی منڈی سے نکالے گئے والیم ٹین کا شور مچایا گیا، جعلی کرپشن کی کہانیاں بیان کی گئیں ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار (پانچویں پُشت کی دوغلی ابلاغی جنگ ) کے نام پر سوشل میڈیا طوفان بد تمیز و گالم گلوچ برگیڈ سرکاری خرچے پر کھڑی کی گئی داڑھی اور بغیر داڑھی کے تجزیہ کار خریدے گئے، رئٹائرڈ فوجی افسروں کو دفاعی تجزیہ کاروں کے طور پر اتارا گیا۔ میڈیا کنٹرل کیا گیا اور اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ عوام تک صرف تصویر کا ایک ہی رخ پہنچے، چور چور کی ایسی صدائیں بلند کی جائیں کہ جس کے شور میں حق چھپ جائے۔
میاں نواز شریف کے خلاف ساری ریاستی مشینری کو جھونک کر بھی جب الزامات کے ثبوت نہ ملے تو سعودی عرب سے ایک اقامہ تلاش کیا گیا، جس کے مطابق آنے جانے کی آسانی کے لیے میاں نواز شریف نے اپنے بیٹے کی کمپنی میں بطور ڈائریکٹر شمولیت اختیار کی تھی، جس کی ایک تنخواہ بھی مقرر تھی جو کبھی وصول ہی نہیں کی گئی تھی، اس لیے اسے الیکشن کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات میں درج بھی نہیں کیا گیا تھا، اس اقامہ کو جسے پانامہ کے شور میں تلاش کر کے لایا گیا تھا سے نواز شریف کو آئینی طور پر نکالنے کا بندوبست نہ ہوا تو ثاقب نثار اینڈ کمپنی نے بلیک لاء ڈکشنری کی ایک ٹرم ایجاد کی اور یوں میاں نواز شریف کو نااہل کر کے 2018 کے انتخاب سے الگ کردیا گیا۔ میدان صاف ہوا تو پراجیکٹ عمران خان کے سہولت کاروں نے الیکشن کی تیاری شروع کر دی۔
جاری ہے